Qalamkar Website Header Image

کمال کا زوال

Sami Khanسماج، آبادی کی بڑھوتری سے نہیں بلکہ مہذب معاشرتی اور سماجی اقداروں سے تشکیل پاتا ہے۔ ہم کہیں اسلام آباد کی میٹرو بس، پاک سعودی ٹاور، بلیو ایریا کی خوبصورت عمارتوں، لاہور کو استنبول سے تشبہیہ دے کر اور شوکت خانم کو دیکھ کر خود کو مہذب معاشرہ نہیں سمجھ بیٹھے ہیں؟ سماجی روایتیں اور اقدار ایک دم سے نمودار نہیں ہوتے، بلکہ شعوری اور لاشعوری رویوں سے بنتی جاتی ہیں، بنیادی طور پہ اگر معاشرہ تعلیم یافتہ ہو، تو معاشرتی اقدار بھی اعلی سطح کی ہوں گی، ورنہ حافظ حمداللہ اور خواجہ آصف جیسے لوگ صرف سیاسی نہیں بلکہ سماجی اور معاشرتی اقداروں کے نمائندہ ہوں گے۔ کہیں ہم معاشرے کو مردم شماری کے نام سے صرف مردوں کا معاشرہ تو نہیں سمجھ بیٹھے، بلکہ عورت بھی اس معاشرے کی ہی فرد ہے، جتنا ایک داڑھی والا حافظ حمداللہ ہے، اور بغیر داڑھی کا خواجہ آصف۔ ہاں اگر ہم مردم کو صرف مرد ہی مطلب لیتے ہیں تو ظاہر ہے، ایک جنسی گٹھن زدہ معاشرے کو دوام ملےگی۔
زوال کا بھی اک نقطہ عروج ہوتا ہے اور ہم اسی زوال کے نقطہ عروج پہ ہیں۔ حالیہ غیرت کے نام پر ہونے والے ظلم کے واقعات پر جہاں بہت ساروں نے اپنی غیرت کے نام تمغے لیے ہیں وہاں ہماری مہذب معاشرہ ہونے کے دعوے کی بھی قلعی کھول دی ہے میں کس کس کی بات کروں فرزانہ پروین کی جسے تب سنگسار کیا گیا تھا جب وہ حاملہ تھی،کنول بی بی کی جسے اس کے محترم والد صاحب نے گولی مارکر غیرت کا تمغہ اپنے نام کیا، جس کی عمر ابھی کھیلنے کھودنے کی تھی اسے نام نہاد غیرت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ میں سمیرا کو کیسے بھول سکتا ہوں، جسے سولہ سال کی عمر میں اس کے بھائی نے چاقوں کے وار سے زخمی کیا اور اسے گھسیٹ کے باہر لا کر پورے محلے سے غیرت کی سند لی ایبٹ اباد کی امبرین جسے گاڑی میں باندھ کر اس لیے جلایا گیاتھا کہ اس نے دو دلوں کو ملانے کو مشورہ دیا تھا۔ ماریہ سادات جسے اٹھارہ سال کی عمر میں اس لیے جلایا گیا کہ اسے اپنی مرضی سے شادی کرنی تھی، جو عین اسلامی اقدار کے مطابق تھا۔ زینت رفیع جو اسی ھفتے جلائ گئ اس کی وجہ قتل بھی غیرت یہ تو تھیں ایک مختصر فہرست اب بندہ پوچھے شرمین عبید کو ایجنٹ کہنے والوں سے اب ملکی وقار کو ٹھیس کیوں نہیں پہنچ رہی ان نام نہاد غیرت مندوں سے ہٹ کر بھی ہم من حیث القوم عورتوں کی کتنی عزت کرتے ہیں، خواجہ اصف کے حالیہ جملوں سے اندازہ لگا لیں جو صرف ایک عام انسان نہیں، بلکہ ملک کےاک اہم محکمے کا منسٹر ہے، یوں عورت کو ٹرالی سے تشبیہ دینا مہذب معاشرے کی اقدار نہیں ہوا کرتیں ۔ چلیں اس کو بھی رہنے دیتے ہیں، معافی مانگ لی، جمہوری روایات کو مضبوطی ملی۔ لیکن ایک مزہبی سیاسی پارٹی کے رہنما حافظ حمداللہ کو کس کیٹگری میں رکھیں۔جو براہ راست عوام کے سامنے روزے کی حالت میں عورتوں کی شلوار اتارنے کی باتیں کرتا ہے۔ موصوف نے اک زمانے میں بلوچستان کے ہیلتھ منسٹر تھے تب ایک ہیلتھ ورکر سے چپکے سے لو میرج کی تھی، جو بعد میں ۵۰ لاکھ کے معاوضہ پہ ختم کی گئ تھی۔ تب سے انہیں محبت اور عورت ذات سے اک چڑ سی ہو چکی ہے پچاس لاکھ کوئ کم رقم تھوڑی ہوتی ہے خیر اب بتائیں یہ کمال کا زوال نہیں ہے، کہ ھمارے معاشرے میں حقوق نسواں کا بل بھی مرد بناتے ہیں، مرد طے کرتے ہیں کہ عورت کو کتنے حقوق دینے چاہییں مہذب معاشرے یہ فیصلہ نہیں کرتے وہ عورت اور مرد کو برابر کے حقوق دیتے ہیں دنیا میں ایک اندازے کے مطابق دس ہزار غیرت کے نام پہ قتل ہوتے ہیں، اور ہم اس میں صف اول کے نمایندے ہیں۔ ٢٠١٠ میں انگلینڈ میں غیرت کے نام پہ قتل ہونےپہ ایک سروے ہوا ، جس میں ٢٢ لڑکیاں غیرت کے نام پہ قتل ہوئ تھیں ،اس میں ۱۵ ہمارے پیارے پاکستانی تھے ۔ ہم مہشب معاشرہ تب کہلائیں گے جب ہماری خواتین کو گھر آفس سڑک بازار سکول جانے کیلیے کسی مرد کے سہارے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی حیرت ہے اک ایم فل کی سٹوڈنٹ لڑکی اپنے چھ سالہ بھائ کی منتیں کر رہی ہوتی ہے کہ وہ اسے یونیورسٹی تک چھوڑ آئے میل ڈومینیٹنگ سوسائٹی کی اس سے بڑھ کے اور کیا مثال ہو سکتی ہے

حالیہ بلاگ پوسٹس