Qalamkar Website Header Image

گوتم بدھ کی کچھ باتیں

بدھ مت برصغیر پاک و ہند میں جنم لینے والا مذہب ہے۔ بنیادی طور پر بدھ مت ہندو مت کی تعلیمات کا رد عمل ہے۔ بدھ مت برابری، انسانی احترام، ذات پات سے بالاتر تصورات کاحامل ہے۔ بدھ مت کے بانی مہاتما گوتم بدھ تھے جو نیپال کے ایک علاقہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بنارس میں اس مذہب کی بنیاد رکھی۔ ان کی تعلیمات کا سب سے اہم فلسفہ عدم تشدد ہے۔ جبکہ بدھ مت کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ روح تغیر پذیر ہے۔ بدھ ازم اپنے پیروکاروں کو سچائی، حلال روزی کمانے کی تعلیم دیتا ہے۔ بدھ مت کے دو بڑے فرقے ہنائنا اور مہائنا ہیں۔ بدھ مت کی عبادت گاہ کو پگوڈا کہتے ہیں۔

گوتم بدھ 543 قبل مسیح یعنی آج سے تقریباً اڑھائی ہزار سال پہلے نیپال کے ایک علاقے کپل وستو میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نے ان کا نام سدھارتھ رکھا، اور ماں نے گوتم۔ گوتم بدھ کی ماں ان کی پیدائش کے ساتویں دن دنیا سے رحلت کرگئی تھی۔

گوتم بدھ ایک نرم مزاج، خاکسار اور عاجزی پسند انسان تھے۔ ان کی سوچ اور مشاہدہ عام لوگوں سے مختلف تھا۔ ان کی نرم مزاجی کی ایک کہانی ہے۔ ایک دن گوتم کے کزن نے ایک پرندے کو مارا۔ پرندہ آکر گوتم کے قدموں میں گرا۔ گوتم نے پرندے کو اٹھا کر تیر نکال دیا اور کزن کو واپس دینے سے انکار کیا۔ پرندہ ابھی مرا نہیں تھا۔ گوتم نے اس کا علاج کیا، کھلایا پلایا اور بہترین افزائش کی۔ کزن نے دوبارہ درخواست کی کہ اس کا پرندہ اس کو واپس کیا جائے، لیکن گوتم نے پھر انکار کردیا۔ پنچائیت بیٹھ گئی اور اس پر فیصلہ ہوا کہ پرندے پر مارنے والے سے زیادہ حق بچانے والے کا ہے۔ اور پرندے کے مالک گوتم بدھ ٹھہرے۔ اسی طرح جب پرندہ مکمل صحت یاب ہوگیا تو گوتم نے اسے آزاد کردیا۔

گوتم بدھ کی یہ نرم مزاجی جب ان کے والد نے دیکھی تو پریشان ہوگئے اور مختلف لوگوں سے مشورے کئے کہ گوتم کی توجہ دنیا کی طرف کیسے کی جائے؟ کیونکہ ایک پنڈت کیلئے دنیاوی سوچ بھی رکھنی چاہیے۔ ایک بندے نے گوتم بدھ کے والد کو گوتم بدھ کی شادی کا مشورہ دیا اور اس طرح وہ بیس سال کی عمر میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ وہ اپنی بیوی سے بےپناہ محبت کرتے تھے۔

یہ بھی پڑھئے:  یہ کافر،فتنہ طاقت ربا کیا-تسنیم عابدی

گوتم کی ایک خواہش تھی کہ وہ باہر جاکر دنیا دیکھے، لوگوں سے ملے اور ان سے بہت ساری باتیں کرے۔ ایک دن وہ اپنے درباریوں کے ساتھ باہر گئے تو ایک بوڑھا بندہ دیکھا جس کی کمر ضعیف العمری کی وجہ سے جھک چکی تھی۔ گوتم نے اپنے ساتھ ایک درباری سے پوچھا کہ انہیں کیا ہوگیا ہے، درباری نے جواب دیا کہ بڑھاپے میں بندہ ایسا ہوجاتا ہے۔ دوسرے دن وہ پھر بازار گئے تو ایک کمزور بندے کو دیکھا، پھر اس نے درباری سے پوچھا اور پھر جواب ملا کہ یہ بیمار ہوگیا ہے۔ تیسرے دن جب وہ بازار گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک مردے کی جسم کو آگ لگائی جارہی ہے۔ مردے کے رشتہ دار بہت افسردہ، غمزدہ اور کچھ بہت زور زور سے دھاڑیں مارکر رو رہے ہیں۔ گوتم نے پوچھا یہ کیوں رو رہے ہیں اور یہ لوگ کیوں افسردہ ہے۔ درباری نے جواب دیا کہ یہاں اس کی زندگی ختم ہوگئی ہے۔
گوتم یہ باتین سن کر بہت افسردہ ہوگئے اور اپنے والد، اور بیوی سے اجازت طلب کی کہ وہ زندگی کی کھوج میں نکلیں گے۔ اس وقت تک اس کا ایک بیٹا بھی ہوگیا تھا۔

بالاخر انہیں اجازت مل گئی اور زندگی کی کھوج میں نکل پڑے۔بڑے پنڈتوں سے علم حاصل کیا لیکن لاحاصل، مراقبہ کیا لیکن کھوج مکمل نہیں ہوئی، ریاضت کی تاکہ جسم مضبوط ہو، لیکن ذہنی سکون حاصل نہیں ہو سکا۔ سات سال تک کھانا چھوڑدیا، صرف زندہ رہنے کے لئے کچھ پتے کھایا کرتے تھے، لیکن کچھ بھی فائدہ نہیں ہوا۔

ایک رات ایک جنگل میں ایک درخت کے نیچے سو رہے تھے کہ اچانک روشنی مل گئی۔ وہ یہ تھی کہ اگر دنیا میں چار چیزیں نہ ہوتیں تو موت کا بالکل ڈر نہ ہوتا، اور وہ چار چیزیں ہیں حرص، جسمانی ہوس، خودی کا شدت سے احساس اور دنیا کی طرف رغبت۔ انہوں نے کچھ مزید لوگوں کو اپنے ساتھ لے لیا اور دور دور علاقوں تک تبلیغ کیلئے نکل گئے۔ ان کی تعلیمات تھیں کہ پیار و شانتی سے رہنا چاہیے، صلہ رحمی کرنی چاہیے، عاجزی، خاکساری، روادری، غریبوں کی مدد، لڑائی جھگڑے ختم ہونے چاہیے اور عورتوں کو مرد کے برابر حقوق مل جائے۔ جن چیزوں سے وہ منع فرماتے تھے، وہ غصہ تھا، ضد، تعصب، دھوکہ، نفرت، غیبت، انانیت، تکبر اور بدنیتی تھی۔
گوتم کے والد نے ان کے پیچھے درباریوں کو لگایا تاکہ انہیں واپس لایا جائے اور بلآخر جب وہ اپنے والد کے ساتھ ملے تو ایک فقیر کی شکل میں تھے۔ تب تک ان کا بیٹا بڑا ہوگیا تھا۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر ان کے والد بہت خفا ہوئے اور اسی صدمے سے وہ مرگئے تھے۔ گوتم بدھ کا بیٹا بھی اپنے والد کے نقش قدم پہ چلنے لگا اور یہ تعلیمات بہت دور دور تک پہنچ گئی۔

یہ بھی پڑھئے:  عدم برداشت اور ہمارا معاشرہ - تنزیلہ یوسف

اسی سال کی عمر میں گوتم بیمار ہوگئے اور ایک دوست کو ساتھ لے کرایک باغ میں چلے گئے۔ باغ کے پاس ایک لوہار نےگوتم کی دعوت کری اور دعوت خاص میں گوتم کو گوشت کھلایا، جس کی وجہ سے علالت شدید ہوگئی اور دنیا سے چل دئے۔

زندگی نے ایک ختم ہونا ہے، نفرت، جنگ، قتل و غارت، بغض، کینہ، حسد، دشمنیاں اور غیبت کیلیے زندگی جینا نہ کوئی مذہب سکھا تا ہے اور نہ انسانی فطرت کا وطیرہ ہے۔ چار دن کی یہ زندگی محبت، خوشی، پیار محبت اور ہمدردی سے گزارنے میں کیا قباحت ہے۔ جلال الدین رومی نے ایک دفعہ ایک بندے سے کہا، کہ لوگ کیسے نفرت کا بوچھ لیکر زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ زندگی بہت خوبصورت ہے، خدارا یہ چار دن کی زندگی کسی غیر مہذب، غیر انسانی اور نفرت سے بھرے ہوئے جذبے کے حوالے مت کریں۔

حالیہ بلاگ پوسٹس