Qalamkar Website Header Image

ملک کو درپیش سنگین چیلنجزاور ہم

وزیر اعظم عمران خاں نے اپنے خیال کے مطابق بہترین ٹیم منتخب کی ہے،جس کے لیے وزیر خزانہ اسد عمر کی نظیر کافی ہے۔ دیگر وزراء کے نام بھی بدرجہاتم موجود ہیں۔ بقول پرانے سیاسی اور نظریاتی کارکن جناب قیوم نظامی ’’وزیر اعظم عمران خاں کی نیت ٹھیک ہے ‘‘ قیوم نظامی صاحب بھلے صحیح کہتے ہوں کیونکہ ان کی ساری عمر بھی نظام کی تبدیلی کے لیے جدوجہد کرتے گزری ہے۔ اس لیے ان کی بات پر اعتبار کیا جا سکتا ہے کہ وہ( عمران خاں) ملک پر مسلط گھسے پٹے فرسودہ استحصالی نظام کو تبدیل کرنے کا جذبہ بھی رکھتے ہیں۔
عمران خاں سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو سے نواز شریف تک بشمول جنرل ضیا ء الحق، جنرل مشرف سب نظام کو تبدیل کرنے کے نعرہ کے ساتھ برسراقتدار آئے ، لیکن وہ دس دس گیارہ گیارہ سال بلا شرکت غیرے حکمرانی کرکے کے باوجود وطن عزیز کو دیمک کی طرح کھانے والے فرسودہ نظام کا’’ بال بھی بیکا نہ ‘‘کرسکے مگر خود وادی اقتدار سے ایسے نکال باہر کیے گئے جیسے’’ مکھن میں سے بال‘‘ نکال کر باہر پھینک دیا جاتا ہے۔نواز شریف کو تو پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت بھی حاصل رہی ہے لیکن وہ چاہتے ہوئے اس نظام کے سامنے بے بس دکھائی دیئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو تو اقتدار انتہائی نامساعد حالات میں سونپا گیا تھا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت پاکستان کو اندرونی اور بیرونی سطح پر بہت سارے چیلنجز درپیش ہیں۔ مغربی سرحد پر دہشت گرد اور ان کے حامیان برسرپیکار ہیں تو مشرقی سرحد پر بھی ہمیں غیر مستحکم کرنے کے لیے ہمارا ازلی دشمن بھارت دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے کے علاوہ مسائل پیدا کررہا ہے۔ کشمیر میں ظلم و ستم اس سے الگ ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی مستقل خارجہ پالیسی نہ ہونے کے باعث متعدد دشواریاں بھی کھڑی ہوئیں۔ جیسے پہلے افغانیوں کو جہاد کی تربیت دی گئی اورپھر ان کے ہمراہ سویت یونین کے خلاف جنگ لڑی گئی، اور چند سال بعد ہمیں انہیں جہادیوں کے خلاف میدان میں اترنا پڑا اور ابھی تک ہم ان جہادیوں پر مکمل قابو نہیں پاسکے جبکہ امریکا ہمیں ان کے خلاف مذید کارروایہاں کرنے کے احکامات صادر فرماتا رہتا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت برسراقتدار آنے کے بعد قوم کو نوید سنائی گئی ہے کہ اب پاکستان کی خارجہ پالیسی ’’ پاکستان کے دفتر خارجہ میں بنے گی اور پاکستان کے لیے ہوگی‘‘ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو کیونکہ ماضی شاہد ہے کہ یہاں حکمران امریکا مخالف نعرے لگا کر برسراقتدار آتے رہے اور پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرنے کی بجائے امریکی مفادات کو تحفظ فراہم کرتے رہے۔ بلکہ بعض اوقات تو ہمارے وزرائے اعظم بھی امریکا سے بلائے جاتے رہے جن میں محمد علی بوگرہ، معین قریشی ،شوکت عزیز بطور مثال پیش کیے جا سکتے ہیں۔
ملک کو درپیش چیلنجز سے نبٹنے کے واسطے حکومت اور اپوزیشن کاتمام اختلافات کو قائم رکھتے ہوئے ایک پیج پر آنا لازم ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بقول حکمران انہیں بہت سے مسائل ورثہ میں ملے ہیں اور انہیں حل کرنے کے لیے وقت درکار ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے قانون سازی بھی کرنی پڑے گی لہذا اپوزیشن کے تعاون کے بغیر حکومت یہ قانون سازی کا مرحلہ عبور نہ کر پائے گی۔ اس لیے اپوزیشن پاکستان اور پاکستانی قوم کی تقدیر بدلنے کے لیے حکومت کا ساتھ دے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو اپوزیشن کو پاکستانی عوام کے غیض و غضب کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
حکومت اور اپوزیشن کا ایک پیج پر ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ بھارت جو ہم کو زیر کرنے کے لیے بہانے کی تلاش میں رہتا ہے اسے بتایا جائے کہ’’ ہم ایک ہیں‘‘ اگر ایسا پیغام ہم بھارت کو نہیں پہنچاتے تو ہمیں( اپوزیشن اور حکمرانوں کو اس کا خمیازہ بھگتنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ملکی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ہمارے وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کرکے کشمیر کے مسلے کو اجاگر کیا ہے اور عالمی برادری کو باور کرایا ہے کہ وہ بھارت کو مسلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر آمادہ کرے۔ شاہ محمود قریشی نے بھارت کو یہ بھی تنبیہ کی کہ اگر اس نے جارحیت مسلط کرنے کی کوشش کی تو اسے منہ توڑ جواب ملے گا۔
اپوزیشن کا اصرار ہے کہ وزیر اعظم عمران خاں بذات خود اقوام متحدہ تشریف لے جاتے ، وزیر اعطم نے چونکہ پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ اپنی حکومت کے پہلے سو دن کسی بیرونی دورے پر نہیں جائیں گے لیکن پھر خاموشی سے سعودی عرب پہنچ بھی گئے اور وہاں پاکستان کے طے شہ موقف کے برعک یمن کے قضیہ پر سعودی عرب کی حمایت کا اعلان کردیا گیا جس سے خطے میں موجود ایران نے کچھ تحفظات کا اظہار کیا۔ چلیں جو ہوا سو ہوا ، شاہ محمود قریشی نے مسلہ کشمیر اور بھارت کی جانب سے دہشت گردوں کی پشت پناہی کے حوالے سے پاکستان کا مقدمہ موثر انداز میں پیش کیاہے اپوزیشن کو اس کی تعریف کرنی چاہیے۔
پاکستان کو اندرونی اور بیرونی چیلنجز کے پیش نظر وفاقی وزرا کو محتاط گفتگو کرنے کی تلقین کرنی چاہیے کیونکہ اس وقت حکومت بیک وقت چومکھی لرائی لڑنے کی پوزیشن میں نہیں اور انہیں ملک کو درپیش چیلنجز سے نبٹنے کے لیے اپوزیشن کا تعاون حاصل کرنا چاہیے نہ کہ انہیں ناراض کرکے اپنے پروگرام کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا چاہئیں۔پاکستانی قوم کا اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے اور تقاضا بھی۔

حالیہ بلاگ پوسٹس