Qalamkar Website Header Image

انسان کے مسلط کردہ عذاب

جانتے ہو کچھ رشتے دھوکہ ہوتے ہے زخم ہوتے ہیں جن سے رفتہ رفتہ لہو رستا رہتا ہے۔ تعلق کوئی بھی ہو ایک منفرد چہرے سے تعارف کرواتا ہے۔ یہ دنیا کے باسی بہت بےحس ہیں ان کو ہر سوں بس اپنا عکس دکھائی دیتا ہے۔ کسی کے درد کو اپنے پاؤں کی ٹھوکر سے بھی حقیر جانتے ہیں اور اپنی آزمائش کو بھی دوسرے کے سر ڈال کر ایک نئی اذیت دے کر خود آزاد ہو جاتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں ہمارے حالات آپ کی بددعا کی بدولت ہیں۔ کتنے نادان ہیں بھلا بددعائیں لگنے لگیں تو دنیا میں پھر کچھ بچے ہی نا۔ سارے حساب کتاب یہی ہوں جائیں اور پھر کوئی کسی کے درد کا سامان نہ کرے۔ لیکن سنو بددعا کچھ نہیں ہوتی یہ تو ایک بےبسی اور اضطراب کی کیفیت ہے جب سچائی کا دعویدار خود کو مستند سچائی پر بیٹھا کر دامن چھڑائےتو کچھ بول جانے انجانے میں اس نادانی کی رو میں نکل جاتے ہیں جس نادانی کی سزا ساری عمر بگھت کر بھی تہی داماں رہ جاتے ہیں۔

جو خود آزمائشوں کی مسافت کا مسافر ہو وہ بھلا کسی کو کیا بددعا دے گا۔ اپنی آزمائش کو کسی کی بددعا کہہ کر ایک نئی آزمائش میں مبتلا کرنا بھی انسانیت نہیں۔ لیکن یہ سب کہنے اور سوچنے کی باتیں ہیں۔ سوچ ہو تو شکوہ کیسا شکایت کیسی؟ آزمائش تو انسان کو کندن بناتی ہے اور تم کندن بننے کے بجائے مزید اذیتیں دیتے ہو۔ پھر کہتے ہو بددعا لگی۔ کمال کے انسان ہیں اپنے گریبان میں جھانکتے نہیں۔ کبھی اپنے اندر جھانکو تو شاید جواب مل جائے یہ بددعا تمہارے اپنے بوئے بیج کی ہے یا پھر کسی اور کی۔

یہ بھی پڑھئے:  مجھے داد نہیں داد رسی چاہیے

اس دن فقیر راحموں کہہ رہے تھے کہ "ہم اس عہد نفساں میں میں جی رہے ہیں، جہاں مسائل ہیں اور مسلط شدہ عذاب، آدمی اپنے ہونے اور رخصت پر قدرت رکھتا تو ویرانے بستیوں سے زیادہ ہوتے”۔ تو ذہن میں ایک حقیر سا خیال آیا کہ بستیاں تو آباد ہیں لیکن اپنے اپنے من میں اور ویران ہیں۔ اپنی دیمک زدہ ذات کا بوجھ اٹھائے گامزن سفر ہیں۔ ذات کا تہہ خانہ بھی عجیب سے عجیب تر ہے اپنے اندر نجانے کتنے بوسیدہ الفاظ و لہجوں کی بوسیدگی جذب کر کے بھی جینے کی امنگ کی تمنا کرتا ہے۔ ہر آنے والا دن ایک نئے سبق سے روشناس کرواتا ہے اور ان اسباق کا بوجھ اٹھائے کبھی گرتے ہیں اور پھر بےجان وجود کو اٹھاتے ہوئے خود کو یہ تسلی دیتے ہیں کہ یہاں کوئی کسی کا نہیں اپنے لیے جینا خود ہی پڑتا ہے۔ تعلق اور رشتے تب ہی پائیدار ہوتے ہیں جب من صاف ہو۔ جب من ہی صاف نہ ہو اور مفاد عزیز ہوں تب رشتے خاک میں مل جاتے ہیں اور مفاد پرستی جیت جاتی ہے۔ من جب دوسروں کی نظر سے دیکھے تو تعلق کے قدم مضبوط ہونے کی بجائے ڈگمگا جاتے ہیں۔

انسانوں کے مسلط کردہ عذاب بہت اذیت ناک ہوتے ہیں۔ اس اذیت میں گھرے لوگ ہر لمحہ اپنی آنکھوں کی نمی کو رگڑتے خود کو جینے کی امنگ دیتے یہ شکستہ حال لوگ سوچتے ہیں وہ بھلا کیا بددعا دیں گے جو خود سراپا بددعا ہوں۔ اللہ آزمائش بھی ظرف والوں کو دے نہیں تو یہ الزام بھی ہم جیسے لوگوں کی بےحسی کی نذر ہوئے لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔آپ تو دو لفظ بول کر ہر فکر سے آزاد ہو جاتے ہیں لیکن جب آنکھ پرنم ہوتی ہے تو وہ شکوہ کرتی ہے کہ یہ نمی کا بوجھ اب جھیلا نہیں جاتا۔  بددعا کوئی نہیں دیتا لیکن اتنا ضرور ہوتا ہے کہ جو ہاتھ دعا کے لیے اٹھتے تھے وہ تب کے گر گئے جب انسانوں کے بدلتے رنگ دیکھے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس