حیا نظر کے پردے اور انسان زبان کے پردے کے پیچھے چھپا ہوتا ہے تلوارکے زخم بھر جاتے ہیں مگر زبان کے ۔۔کبھی نہیں ، نفرت کی جو فصل بوئی جارہی ہے، اسکے نتائج انتہائی تباہ کن برآمد ہوں گئے بقول شاعر
میں نہیں مانتا، کاغذ پہ لکھا شجرہ نسب
بات کرنے سے قبیلے کا پتہ چلتا ہے
دھرنا سیاست کے دوران جو تقرریں جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے کی گئیں، زمین و آسمان کے ایسے ایسے قلابے قوم کے گوش گزر گئے کہ نہ جانے کسی مقدس چیز کی توہین ہوگئی ہے حالانکہ احتجاج جمہوریت کاحسن ہے مگر جن لوگوں کے خمیر کی پرورش ہی آمریت کی گود میں ہوئی ہو، انہیں واقعتاجمہوریت’’خطرے‘‘میں نظر آرہی تھی ، مجھے پتہ ہے آپ یہاں جمہوریت کی بے تکی موجودگی سے پریشان ہورہے ہیں مگر تسلی رکھیں، یہاں مراد حسب ذائقہ وہی روایتی سیاسی جمہوریت ہے جو سب لٹیروں اور غاصبوں کوبوقت ضرورت ڈھال مہیا کرتی رہی ہے حقیقی جمہوریت نہیں جو عوام کو جان ، مال اور عزت نفس کا تحفظ فراہم کرتی ہے ، حکومت اور اسکے اتحاد یوں کا ایک گروپ تحریک انصاف پر تنقید کی حدوں کو چھو کر کہیں آگے نکل چکا تھا، بستر مرگ پرپڑے مریض کو صبح، دوپہر، شام اتنی Careکی ضرورت نہیں ہوتی، جتنی اس لاچار جمہوریت کو پڑ گئی تھی اس وقت کی رائج الوقت سیاسی جمہوریت کو، اس گروپ کا جوش خطابت یہی ظاہر کر رہاتھا کہ پارلیمنٹ اور جمہوریت کا بوجھ ان ہی کے کندھوں نے اُٹھا ررکھا ہے ان کی چیخ وپکار تو مریخ پربھی سنائی دے رہی تھی ، کہہ وہ یہ رہے تھے کہ چینی صدر کے دورہ پاکستان کی منسوخی دھرنا سیاست کی وجہ سے ہوئی ہے جسکی وجہ سے معیشت کو جو نقصان پہنچایا ہے تحریک انصاف نے ، اس کو ’’معاف ‘‘کر دینے کی ہمارے ہاں کوئی گنجائش نہیں، اس لیے فوراًسے پہلے دھرنا ختم کر دیا جائے، بات اُن کی کسی حدتک ’’ٹھیک ‘‘تھی سادہ سی بات ہے جس جمہوریت کی چھت لرزنا شروع ہوجائے تو پھرقوم کے ’’بے جمہوریت ‘‘ہونے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے ،دوسرا حکومت اور اسکا اتحادی گروپ اس بات پر بضد تھا کہ تحریک انصاف کو اسمبلی میں آکر بات کرنی چاہیے ، یہ گروپ کام کررہاتھا Back channel Diplomacyکے اصول پر، بہرحال ایک انتہائی درد ناک واقعے کے بعد تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی میں پیش ہوئے، ان کے استعفےٰ سپیکرقومی اسمبلی ایاز صادق ’’منظور ‘‘ نہ کرسکے تھے ، اسمبلی میں کیا جانا ہوا کہ سر منڈاتے ہی اولے پڑنا شروع ہوگئے، خواجہ صاحب نے اپنی سخن وری کا ثبوت ببانگ دہل دیا اور ارشاد فرمایا کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ حیاہوتی ہے وغیر ہ وغیرہ ۔۔۔۔بقول شاعر
ذکر مہرو وفا تو ہم کرتے
پر تمہیں شرمسارکو ن لے
یقین کریں اس Creativityنے جو شہرت خواجہ صاحب کو عطا کی، اگر وہ بطوروزیر پانی و بجلی ،اب تک لوڈشیڈنگ کاخاتمہ کر چکے ہوتے تو پھر بھی ایسا بلند رتبہ حاصل نہ کرسکتے خواجہ صاحب کی اس حاضر دماغی نے جماعت میں اُن کے سیاسی قد میں مزید اضافہ کردیا، تحر یک انصاف کے ارکان اسمبلی نے بھی اپنی جمع شدہ تنخواہیں محفوظ کیں اور بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی کی طرح ’’صلح صفائی ‘‘ کر لی اب رنگ میں بھنگ ملاد ی پانامہ لیکس کے انکشافات نے ‘شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے، خواجہ صاحب نے تحریک انصاف کی رکن قوم اسمبلی کو۔۔۔۔۔۔۔ کہہ ڈالا، میں تہذیب کے دائرے سے باہر نہیں جاسکتا، اس لیے خالی جگہ پُر کرنے سے قاصرہوں ، البتہ وہ ’’Subject‘‘سازو سامان کی ترسیل کے علاوہ گند مند اور کچر ا اُٹھا کر پھنکنے کے لیے بھی استعمال ہوتاہے ، آپ اس بات پر غور نہ کریں کر خواجہ صاحب کو خواتین کا احترام کرنا نہیں ہوتا بلکہ قابل توجہ بات یہ ہے کہ اسمبلی میں بہت ساکچرا جمع ہے ، یہ کچر اٹیکس چوری، کرپشن، مالی بے ضابطگیوں اور بہت سارے دوسرے لوازمات پر مشتمل ہے ، جس کو ٹھکانے لگائے بغیر اب کوئی چارہ نہیں، تحریک انصاف کی جانب سے خواجہ صاحب سے معافی کا مطالبہ کیاگیا ہے ، آپ ایک لمحے کے لیے اس مطالبے کو بھول جائیں ، کیا عمران خان کو پہلے قوم اور پھر اپنی پارٹی سے معافی نہیں مانگنی چاہیے جن کی اپنی اسمبلی میں حاضری پانچ فیصد تک رہی ہے تحریک انصاف کو اسی لاکھ ووٹ ملا تھا، لوگ موروثی سیاست اور Status-Quoسے بیزار ہوچکے تھے تیس، پینتیس نشستیں بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کے لیے کافی تھیں مگرشاید حقیقی معنوں میں اپوزیشن کا حق تحریک انصاف بھی ادا نہیں کرسکی ، اگر شروع دن سے جلسہ جلسہ ، جلوس جلوس کو ذراموخر کرکے اپنی پارٹی کا تھنک ٹینک تشکیل دیا جاتا، تنظیم سازی کی جاتی، بلے کے متوالوں کو روایتی سیاست کے گُر سکھائے جاتے تو آج تحریک انصاف بطور سیاسی پارٹی بہت مضبوط ہوتی ، خواجہ صاحب کی سخن وری کا مقابلہ کرنے کے لیے حکمران جماعت کے بہت سے وزراء نے خوب ہاتھ پاؤں مارے مگر ہنوز ناکامی کا سامنا کرنا پڑا بقول ذوق
نہوا پر نہوا امیر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زورغزلیں مارا
اگر ٹاک شوز کے بجائے اسمبلی میں اپوزیشن کا بھرپورکردار ادا کیا ہوتا توخاتون رکن اسمبلی پر جملے نہ کسے جاتے بلکہ ’’نالائق‘‘اپوزیشن کے طعنے کا بھی سامنا نہ کرنا پڑتا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn