زمانے کے ڈھنگ نرالے ہیں۔ اعتبار جاں ٹوٹتا بندھتا رہتا ہے۔ سفرِحیات جاری ہے۔ اپنے اصل سے جُڑے لوگوں کے لئے قدم قدم پر امتحان در آتے ہیں۔زندگی امتحانی پرچے کے سوا کیا ہے۔ سوال در سوال ہر سانس کے ساتھ ایک سوال۔ کبھی کبھی امتحانی پرچے کے نہ ختم ہونے والے سوالات سے گھبرا اٹھتا ہوں تو سرکار سیدی نفس ذکیہ رضوان اللہ تعالیٰ کی یاد دستک دینے لگتی ہے۔ فرماتے ہیں۔’’جتنی بڑی فضیلت اتنا بڑا امتحان‘‘۔ انسان ہونا اور انسانی رشتوں کے تقدس کا احترام فضیلت ہی توہے، آدمیوں کے گھنے جنگل میں اگر آپ چار اور کے مظلوموں کی آواز سنتے اور ان کے حق میں نعرۂ مستانہ بلند کرتے ہیں تو آپ حق انسانیت بطریق احسن ادا کرتے ہیں۔
شاہ لطیف بھٹائیؒ فرماتے ہیں۔’’جسے حق زندگی ادا کرنے کی لگن نہ ہو وہ بستیوں پر بوجھ ہے‘‘۔ ہم اس عہد نفساں میں جی رہے ہیں۔ مسائل ہیں اور مسلط شدہ عذاب، قدم قدم آگے بڑھتے سفر طے ہو رہا ہے۔ سانسوں کی ڈور کب تک سلامت رہے یہ کسی کو معلوم نہیں۔ آدمی اپنے ہونے اور رخصت کے فیصلوں پر قادر ہوتا تو ویرانے بستیوں سے زیادہ ہوتے۔بہت دن ہوتے ہیں اپنے محبوب شاعر حافظ شیرازیؒ کے کلام کے اوراق پلٹ نہیں پایا۔ مسافر کا ٹھکانہ بدل گیا۔ سامان الٹ پلٹ ہوا ترتیب لگے تو پھر مطالعے کی دنیا آباد ہو۔ زندگی کتابوں کے اوراق میں بند ہے۔ کتاب زندگی کی اپنی تحریریں ہیں۔ اسے پڑھنے سے گریزاں رہنے والے امتحانی پرچہ حل نہیں کر پاتے۔
چند دن ہوتے ہیں جب مرشدی سید بلھے شاہؒ کی شفقتوں نے دستک دی۔ شاہ فرمارہے تھے۔’’زندگی کی محبت میں گرفتار ہونے کی ضرورت نہیں اپنے حصے کے کام پر توجہ دیا کرو۔ عرض کیا مرشدی، حال دل بیان کرنے کی ضرورت تو نہیں؟۔جواب ملا ’’جس بات سے بھرم ٹوٹے اس سے اجتناب بہتر ہے‘‘۔
60برس پورے ہونے میں تقریباً5ماہ باقی ہیں۔ 139دن باقی دنوں کی طرح گزر جائیں گے۔
گزرے ماہ وسال کا حساب سارا، کتاب زندگی پر لکھا ہے۔ سفر جاری ہے اور مشقت بھی۔ شکر ہے کہ جو وقت گزرا اچھا ہی گزرا،ان اچھائیوں میں دوستوں، عزیزوں اور پیاروں کا تعاون شامل حال رہا۔ کجی کوتاہی کی کامل ذمہ داری مسافر پر ہے۔کبھی کبھی جب کتاب زندگی کی اوراق اُلٹ کر گزرے ماہ و سال کی یاد یں تازہ کرتا ہوں تو آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔بچھڑجانے والوں کی یادیں، ساتھ دینے والوں کے لئے شکر گزاری کے جذبات ہیں۔ یہی زندگی ہے۔
چند برس ہوتے ہیں جب ایک مذہبی دوست نے کہا۔ شاہ یہ جو تمہارے نظریات ہیں ان پر جو ابدہی ہوگی کبھی ٹھنڈے دل سے سوچنا کہ مالک حقیقی کو کیا جواب دوگے؟۔
عرض کیا، دوستوں سے حساب کتاب ہم نے نہیں کیا تو ہم سے کیسا؟۔ تڑخ کر بولے تم سدھرنے کے نہیں۔عرض کیا اب اس عمر میں سدھر کر کیا کریں گے۔
ایک بار ایک عالم دین دوست نے کہا۔ میں تمہارے لئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تمہیں حق سے آشنا کرے۔ مسکراتے ہوئے جواب دیا۔مولانا میں بھی آپ کے لئے یہی دعا کرتا رہتا ہوں۔ لیکن لگتا ہے کہ ہماری دعائیں قبولیت کا شرف حاصل نہیں کرپاتیں۔ مولانا ناراض ہوئے اور اب تک ہیں۔
شعر یاد نہیں آرہا مفہوم کچھ یوں ہے کہ مولانا ہمیں عذاب دوزخ سے یوں ڈرائے چلے جاتے ہیں جیسے تازہ تازہ دورۂ دوزخ فرما کر لوٹے ہوں۔
اچھا ویسے رب اور بندے کے درمیان آئے یہ زبردستی کے وچولے کسی حال میں بھی خوش نہیں رہنے دیتے ارے بھائی پہلے اپنے طور طریقوں پر تو نگاہ دوڑالیجئے جو زندگی آپ جی رہے ہیں وہ سنتؐ کے مطابق نہیں بلکہ انحراف سے عبارت ہے۔ بہت دنوں کی غیر حاضری کے بعد یہی لکھ پایا ہوں پڑھ لیجئے بلکہ پڑھ چکے ہیں آئیے اب دست دعا بلند کرتے ہیں۔ رب سب کی خیر کرے۔آمین
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn