Qalamkar Website Header Image

بیٹا ہو سکے تو ایک پودا میرے مرتضیٰ کے نام کا بھی لگا دینا

اپنی تنظیم خیالِ نو Ideas9 کی جانب سے شہداء پاکستان کے نام پر شجر کاری مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا تو سب سے پہلے تنظیم کے ممبران نے مل کر فیصلہ کیا کہ ایک فہرست مرتب کی جائے کہ کن شخصیات کے نام کا پودا لگانا ہے۔ پاکستان میں شہداء تو بہت سارے ہیں، بہت ساری بڑی شخصیات ہوئیں جنہوں نے ملک کے لئے بڑی گراں قدر خدمات انجام دیں، سبھی کے لئے علیحدہ علیحدہ پودا لگانا یا لگوانا ھمارے لئے ممکن نہ تھا۔خیر ہم نے ناموں کی فہرست بنائی، جتنے ناموں کے پودے لگانے کا سوچا تھا فہرست اس سے دگنے ناموں کی بنی، اور ابھی بھی سبھی کے دل میں کسک رہی کے کاش فلاں نام بھی شامل ہو جاتا، فلاں نام بھی شامل ہو جاتا۔
جب ناموں کی فہرست مرتب کی گئی تو جو نام پہلے ذہن میں آئے ان میں شہید ڈاکٹر علی حیدر اور ان کے نو سالہ بیٹے مرتضیٰ کا بھی تھا۔

ناموں کی فہرست تیار ہونے کے بعد اب مرحلہ تھا کہ یہ طے کیا جائے کہ کس شہید کے نام کا پودا کون سی شخصیت لگائے گی، تو سبھی نے اس بات پر متفق ہوئے کے شہید ڈاکٹر علی حیدر صاحب کی والدہ سے بہتر کون ہو سکتا ہے اس کام کے لئے، اب اگلا کام تھا کہ کوئی ریفرنس یا رابطہ ڈھونڈا جائے جو ہماری ان سے ملاقات کروائے۔
ایسے میں ہماری تنظیم کے بہت اہم رکن عامر کاظمی نے خوشخبری سنائی کہ وہ ڈاکٹر صاحب کی والدہ سے ملنے کا وقت طے کروا چکے ہیں، اب بس جا کر کسی طرح انہیں منانا ہے کہ وہ اس کام کے لئے کچھ وقت نکال سکیں۔

مقررہ دن اور وقت پر میں اور اسد رضا ،عامر کاظمی کے ہمراہ شہید ڈاکٹر علی حیدر صاحب کی رہائش گاہ کی طرف نکلے تو سارے راستے ملکی سیاست پر بحث مباحثہ چلتا رہا،وقت گزرنے کا احساس بھی نہ ہوا اورہم ڈاکٹر صاحب کی رہائش گاہ پر پہنچ بھی گئے ۔
دروازے پر ان کے گھر کی گھنٹی بجانے سے پہلے ہم تینوں میں یہ طے پایا کہ عامر کاظمی ہمارا تعارف کروائیں گے اور اس کے بعد ساری بات مجھے کرنا ہو گی، اور اسد اس میں معاونت کریں گے۔گھنٹی بجائی، ان کا چوکیدار باہر آیا، ہم نے اپنا تعارف کروایا اور خوش گپیاں لگاتے چوکیدار کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے۔ہمیں ایک کمرے میں بٹھایا گیا کہ یہاں بیٹھ کر انتظار کریں، کمرے کی بناوٹ اور سامان سے معلوم پڑتا تھا کہ یہ شاید study room ہو ،

یہ بھی پڑھئے:  جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی

کمرے کے ایک طرف کتابوں سے بھری الماری تھی تو کمرے کی دوسری طرف ایک سٹڈی ٹیبل جس پر  سٹڈی لیمپ نصب تھا ،ساتھ ایک کرسی رکھی تھی، اور اس کے ساتھ دیوار پر بہت سے چھوٹے بڑے لکڑی کے فریم نصب تھے، اور ان سے دیوار بھری ہوئی تھی، غور کیا تو ان تمام فریموںمیں شہید ڈاکٹر علی حیدر اور انکے شہید بیٹے مرتضیٰ کی تصاویر تھیں، یہ دیکھ کر دل کی کیفیت بدلنے لگی، باہر سے جو ہم چہکتے خوش گپیاں لگاتے اس کمرے میں داخل ہوئے تھے، لیکن اب ہم تینوں پر جیسے سکتہ طاری تھا۔

اتنے میں ڈاکٹر صاحب کی والدہ کمرے میں داخل ہوئیں، سلام دعا، حال احوال کے بعد عامر کاظمی نے سب کا تعارف کروایا اور اس کے بعد میری طرف اشارہ کیا کہ اب ہاشمی صاحب ہمارے آنے کی وجہ بتائیں گے۔
عامر کاظمی کا اتنا کہنا تھا کہ میں جیسے بالکل Blank ہو گیا، جو الفاظ سوچے تھے وہ سبھی جیسے کسی نے دماغ کی تختی سے مٹا دیے ہوں۔کیونکہ جب میں نے یہ سوچا کہ ابھی میں ایک ماں سے کہنے والا ہوں ہم چاہتے ہیں کہ ہم اپنی شجر کاری مہم میں آپ کے بے جرم وخطا قتل ہونے والے بیٹے اور پوتے کے نام پودا لگانا چاہتے ہیں، اس ماں نے کتنی مشکل سے خود کو اب تک سنبھالا ہو گا، کیسے کہہ دوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ بھی پڑھئے:  گستاخ بھینسا اور بے لگام سوشل میڈیا - ارشد فاروق بٹ

خیر کسی طرح لفظ اکھٹے کئے اور کہا کہ ” ہم شجر کاری کی مہم شروع کرنے والے ہیں شہداء کے نام کے پودے لگائیں گے اور ہم چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر علی حیدر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
ابھی یہاں تک ہی پہنچا تھا کہ نجانے کیسے میرے ضبط کا پیمانہ لبریز ہوا آنکھوں سے آنسو چھلکنے لگے، اور ہچکی سی بندھ گئی، کئی بار کوشش کی کہ جملہ پورا کر سکوں لیکن ڈاکٹر علی حیدر کے نام سے آگے نہ بڑھ سکا،

ایسے میں ڈاکٹر صاحب کی والدہ کی بھی آنکھیں بھیگ گئیں، اور ان کو دیکھ کر اسد رضا اور عامر کاظمی سے بھی نہ رہا گیا۔اب اس کمرے میں بالکل خاموشی سی چھا گئی، اتنی خاموشی کہ کمرے میں سسکی کی بھی گونج سنائی دیتی، آنسوؤں کی رم جھم جاری تھی کہ ڈاکٹر صاحب کی والدہ نے ہماری طرف ٹشو کا ڈبہ بڑھایا اور اب کی بار میرے جملے کے مکمل ہونے کا انتظار کئے بغیر بولیں کہ ” بیٹا آ جاؤں گی، جہاں کہو گے، جب کہو گے آ جاؤں گی”

ہم نے شکریہ ادا کیا اور جانے کی اجازت چاہی۔ہم کمرے سے نکلنے لگے تو شہید کی والدہ نے اچانک بھرائی سی نحیف آواز میں کہا:
” بیٹا ہو سکے تو ایک پودا میرے مرتضیٰ کے نام کا بھی لگا دینا”

حالیہ بلاگ پوسٹس