آج کیا پکائیں سے لے کر بیٹا بیٹی کہاں بیاہیں ؟ ہر گھڑی فیصلے کے نازک موڑ پر کھڑے ہیں ۔
چلو بھنڈی، کریلا، برگر، بریانی، کڑی، نہاری، پائے تو ایک دو لوگوں کے مشورے سے تیار کرلئےجاتے ہیں لیکن رشتے ناطے طے کرتے ہوئے محلہ کے معتبر افراد ، خاندان کے بزرگوں سے بار بار مشاورت کی جاتی ہے اور اگر کسی خوش نصیب کے اپنے پیر ومرشد ہوں تو ان مجوزہ پیر صاحب کی دہلیز ہی جیسے پکڑلیتے ہیں عقلمند۔
ہاتھ کی لکیریں ، ستارے اور پھر استخارے ،پھر خوب چھان پھٹک کے بعد فیصلہ کرنے کے بعد بھی قبول ہے کہنے سے پہلے خاندان بھر کا دل دھڑکتارہتا ہے ۔ سہم سوار رہتا ہے جانے اس رشتہ سے بے توقیری ، ناقدری اور بے حیثیتی ملے گی یا راوی چین ہی چین لکھے گا ۔
یہی کیفیت اس وقت ہم اہل وطن کی ہے ۔ لگڑبگھوں ، ہتھیاروں ، اوزاروں کے بیچ میں کس کو چنیں ؟
کس کے ہاتھ اپنی آنے والی کل سونپیں ؟ کون اتنا سیانا اور معتبر جو یہ فیصلہ کرنے میں مشاورت کرے ؟
نہ ہی اس معاملے میں پیر فقیر راستہ دکھاتے ہیں ۔
اچھا! یاد آیا ہم جب سیاسیات کے مضمون کے رٹے لگاتے تھے تو کسی بھی تقابلی جائزے کے لیے کاغذ کے درمیان لکیر کھینچ کر ایک طرف ایک نظامِ حکومت اور دوسری طرف دوسرے نظام حکومت کی تمام تفصیلات لکھ کر سیدھا سیدھا نتیجے تک پہنچ جاتے ۔
اب تو چند گھنٹے ہی باقی ہیں خوب سوچئے کاغذ پر لکھ کر غور فرمائیے۔
ہم سوچ سکتے ہیں۔ شعور رکھتے ہیں اچھائیوں اور برائیوں پر غوروخوض کجیے ۔ استخارہ کیجئے اور پھر دل نہیں ضمیر کی آواز پر لبیک کہہ کر اپنے وطن کے آنے والے پانچ سال کافیصلہ کیجئے ۔ اختیار مکمل آپ کے ہاتھ میں ہے ۔ پاکستان کو ناقدر شناسوں کے حوالے نہ ہونے دیجئے ۔آپ کا ووٹ ہوسکتا ہے ویٹو پاور رکھتا ہو اس لئے "قبول ہے” کہنے سے پہلے بار بار سوچیے ۔
پاکستان زندہ باد
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn