انتخابات 2013 کی طرح موجودہ ا لیکشن بھی خونی ہے جو انتخابی مہم کے دوران اب تک تین سو سے زائد لوگوں کی بھینٹ لے چکا ہے ۔ اے این پی ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ساتھ اس بار ن لیگ بھی دہشتگردوں اور اداروں کا ہدف ہے ، بالخصوص پنجاب اور سندھ میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی جانب سے وفاداریاں تبدیل کرانے ، ایک مخصوص جماعت کی پشت پناہی اور پری پول رگنگ کے الزامات انتہائی خطرناک ہیں ۔
چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان کو نیب اور عدالتوں نے ہیلی کاپٹر کیس ، پارٹی فنڈنگ کیس ، بنی گالہ جعلی این او سی کیس ، دھرنا کیس میں حاضری سے استثنیٰ یا التواء کا ریلیف دیا ، علیم خان کے خلاف ای او بی آئی کرپشن اور ہاوسنگ اسکینڈل کیس سے صرف نظر کیا جبکہ زلفی بخاری کو کلین چٹ بھی ملی ، چودھری نثار کے حلقے کے مضبوط امیدواروں کو نیب اور عدالت نے ٹھکانے لگادیا ، شیخ رشید کے حلقے میں ان کے مد مقابل حنیف عباسی کا سات سال سے التواء کا شکار ایفی ڈرین کوٹہ کیس الیکشن سے چند روز قبل کھول دیا گیا اور اس میں لیگی امیدوار کو عمر قید کی سزا سنا کر دیگر ملزمان کو بری کردیا گیا ۔ پرویز رشید ، دانیال عزیز ، طلال ، نہال ہاشمی کے بعد اب فواد حسن فواد بھی گرفت میں آگئے۔ احسن اقبال، خواجہ آصف، افضل تارڑ، خواجہ سعد رفیق اور مفتاح اسمٰعیل سمیت دیگر پہلے ہی نیب کیسز بھگت رہے ہیں ۔ نیب کی جانب سے کل مورخہ اکیس جولائی کو الیکشن سے محض تین دن قبل پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک اور امیدوار انجم عقیل خان کے خلاف کرپشن کیس میں تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے جو اسلام آباد کے حلقے این اے 54 سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں ۔ اسحاق ڈار کے بھی ریڈ وارنٹ کل جاری ہوچکے ۔منی لانڈرنگ کیس میں ایف آئی نے آصف زرداری اور فریال ٹالپر کو ملزم قرار دے دیا ہے ۔ شریف فیملی کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی اپیلیں موسم گرما کی تعطیلات کے بعد سماعت کے لئے مقرر کی گئی ہیں ۔
سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے الیکشن کمیشن اور نگران حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے جانبداری کا الزام عائد کیا ہے ۔ سینٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی نے کہا کہ ‘ نگران حکومت مکمل طور پر آئینی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہے، ہارون بلور شہید ہوئے ، مستونگ میں تاریخ کا ہولناک واقعہ پیش آیا، شیخ آفتاب کی گاڑی پر فائرنگ ہوئی، اکرم درانی کے جلسے پر حملہ ہوا، شاہد خاقان عباسی کے قافلے پرحملہ کیا گیا ، بلاول بھٹو کو بھی جنوبی پنجاب میں ریلی نکالنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ امیدواروں اور ووٹرز پر دباؤ ڈالا جارہا ہے ۔ احتساب کے ادارے دو جماعتوں کے خلاف استعمال ہورہے ہیں ۔ رضا ربانی کا کہنا تھا کہ واضح ہے کہ نگران حکومت مکمل طور پر جانبداری کا مظاہرہ کررہی ہے، افسوس ناک بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آئین کے تحت ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے اس پر الیکشن کمیشن خاموش تماشائی بنا ہوا ہے’ ۔ اس موقع پر مسلم لیگ ن کے پرویز رشید اور سعدیہ عباسی نے حسن عسکری کے بھارتی اخبار میں شائع بیان پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ نگراں وزیراعلیٰ پنجاب نے بھارتی اخبار میں پیش گوئی کی کہ پنجاب میں تحریک انصاف کی نشستیں بڑھ جائیں گی، اس بیان سےحسن عسکری کا ایجنڈا واضح ہوگیا ہے، چیف الیکشن کمشنر اس بیان کا نوٹس لیں۔ پرویز رشید نے حسن عسکری سے اس جانبداری پر استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا ہے ۔ دوسری جانب ایم کیو ایم پاکستان بھی بائیس اگست کے بعد سے بیرونی و اندرونی دباؤ کا شکار ہے ۔ خالد مقبول صدیقی اور فاروق ستار سمیت ایم کیو ایم کے رہنماوں نے انتخابی مہم میں رکاوٹیں ڈالنے کا شکوہ کیا ہے ۔ خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ’ بڑی سیاسی جماعتیں میڈیا ہاؤسز میں کروڑوں اربوں کے اشتہارات چلوارہی ہیں لیکن جس جماعت کے پاس پیسے نہیں ، اس کے پینا فلیکس ، پوسٹر اور جھنڈے بھی اتارے جارہے ہیں ، کراچی میں بسنے والے اس عمل کو اچھی طرح دیکھ بھی رہے ہیں اور محسوس بھی کررہے ہیں ۔ ‘ مذکورہ تحفظات کے ہوتے ہوئے کیا صاف شفاف الیکشن کا انعقاد ممکن ہے ؟ اس سارے معاملے میں نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کی خاموشی معنی خیز ہے ۔
الیکشن دو ہزار اٹھارہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس بار مذہبی جماعتیں اور کالعدم تنظیمیں بھی بڑی تعداد میں انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں ۔ مذہبی و فرقہ وارانہ شدت پسندوں کے اس بھیڑ میں تحریکِ لبیک پاکستان، لشکر طیبہ کی اللہ اکبر تحریک اور سپاہِ صحابہ واہل سنت و الجماعت کی راہ حق پارٹی شامل ہیں ۔ تحریک لبیک یارسول اللہ کے سیاسی ونگ تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے قومی و صوبائی اسمبلی کے مجموعی طور پر 566 امیدوار میدان میں ہیں جبکہ کالعدم تنظیموں کے دو سو سے زائد ۔ سینیٹر رضا ربانی نے سینٹ اجلاس میں بتایا ہے کہ’ اس وقت قومی اسمبلی کے لئے 250 امیدوار کالعدم تنظیموں سے ہیں ۔الیکشن کمیشن جواب دے کہ جن کالعدم تنظیموں کے امیدواروں پر کیسز ہیں ان کا ریکارڈ کیوں نہیں منگوایا گیا ؟ قانون اور آئین کی کس شق کے تحت کالعدم تنظیموں کے امیدواروں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی ؟ سابق چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ حیرانی ہوئی کہ نگران وزیر داخلہ پنجاب نے کچھ کالعدم تنظیموں کے ممبران کے ساتھ میٹنگ کی اور نام فورتھ شیڈول سے نکالنے کی یقین دہانی کرائی۔’ کالعدم تنظیموں کے نمائندوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دینے پر شیری رحمان نے نگران وزیرداخلہ پنجاب کے استعفے کا مطالبہ کردیا ہے ۔
سیاست میں انتہا پسندی و نفرت کی ترویج کرنے والی اور ایک ریڈیکل فرقہ پرست ریاست کی تخلیق کی کوشش کرنے والی مذہبی جماعتوں نے انتخابی ماحول یکسر تبدیل کردیا ہے جہاں ووٹ کو بھی لوگوں کے ایمان سے مشروط کردیا ہے ۔ ووٹر کو جنت کی بشارت دی جارہی ہے جب کہ مخالفین کے خلاف کفر کے فتوے دیئے جارہے ہیں ۔ کراچی میں انتخابی امیدوار جبران ناصر کی ریلی پر حملہ اسی انتہا پسندی کا شاخسانہ ہے ۔ ہم اقلیتوں کو آئین کے آرٹیکل 25 اے کے تحت حاصل شہری حقوق دینے کی بات سننے کے بھی روادار نہیں۔
دوسری جانب انٹرنیشنل میڈیا کی نظریں بھی عام انتخابات پر ہیں ۔ نیو یارک ٹائمز ، فنانشل ٹائمز ، سی این این ، بی بی سی سمیت کئی اخبارات اور چینلز نے کالعدم تنظیموں کے نام بدل کر انتخابات میں حصہ لینے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور انتخابات کی شفافیت کے ساتھ پاکستان کے دہشتگردی کے خلاف بیانیے پر سوالات اٹھادئیے ہیں ۔ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے جاری مراسلے میں بھی پاکستانی حکومت سے لشکرطیبہ سمیت اس سے جڑے شدت پسندوں کی جانب سے انتخابات میں حصہ لینے پر اپنے خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کا نام دہشت گردوں کو مالی و اخلاقی سپورٹ دینے والی اقوام متحدہ کی گرے لسٹ میں موجود ہے ، ریاست کی جانب سے ایسے اقدامات نہ صرف عالمی برادری بلکہ مقامی باشعور طبقے کے خدشات میں بھی اضافہ کررہے ہیں ۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn