سفرِ آخرِ شب
بہت قریب سے آئی ہوائے دامنِ گُل
کِسی کے رُوئے بہاریں نے حالِ دل پُوچھا
کہ اَے فراق کی راتیں گُزارنے والو
خُمارِ آخرِ شب کا مزاج کیسا تھا
تمھارے ساتھ رہے کون کون سے تارے
سیاہ رات میں کِس کِس نے تم کو چُھوڑ دیا
بِچھڑ گئے کہ دغا دے گئے شریکِ سفر ؟
اُلجھ گیا کہ وفا کا طِلسم ٹُوٹ گیا؟
نصیب ہو گیا کِس کِس کو قُربِ سُلطانی
مِزاج کِس کا یہاں تک قلندرانہ رہا
فِگار ہو گئے کانٹوں سے پیرہن کِتنے
زمیں کو رشکِ چمن کر گیا لہُو کِس کا
سُنائیں یا نہ سُنائیں حکایتِ شبِ غم
کہ حرف حرف صحیفہ ہے ، اشک اشک قلَم
کِن آنسوؤں سے بتائیں کہ حال کیسا ہے
بس اِس قدر ہے کہ جیسے ہیں سرفراز ہیں ہم
ہزار دشت پڑے ، لاکھ آفتاب اُبھرے
جبیں پہ گرد ، پلک پر نمی نہیں آئی
کہاں کہاں نہ لُٹا کارواں فقِیروں کا
متاعِ درد میں کوئی کمی نہیں آئی شاعر مصطفیٰ زیدی انتخاب عظمیٰ حسینی
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn