کچھ عرصہ قبل ہمیں ایک عزیز کے انتقال پر ان کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ جوان موت تھی ہر طرف سے آہ و بکا اور چیخ پکار کی آوازیں سنائی دے رہیں تھیں۔ اس نوجوان کی بہنیں اور ماں اپنے بیٹے کی میت کو دیکھ کر ہوش و حواس سے بیگانہ تھیں۔ بوڑھا باپ اپنے کڑیل جوان بیٹے کو یوں ابدی نیند سوئے دیکھ کر بے بسی و لاچاری کی تصویر بنا بیٹھا تھا۔ اس کا چھوٹا بھائی اپنے معصوم ذہن میں نجانے کیا سوچ رہا تھا کہ میں اس کے قریب گئی اور اس بچے کو تسلی دینے لگی تو وہ کہنے لگا کہ اب ہمارا بڑا بھائی تو رہا نہیں باپ بوڑھا ہے اس میں اتنی سکت نہیں کہ محنت مزدوری کر سکے کیونکہ سب کچھ تو بڑے بھائی نے سنبھال رکھا تھا۔ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہا تو ہم کیا کریں گے؟ یہ کہہ کر لمحہ بھر توقف کیا اور بولا کہ میں سوچ رہا ہوں کہ اگر میں اپنے گھر والوں کا سہارا بنوں اور بڑے بھائی کی طرح محنت مزدوری کروں تو ہمارا گزارہ ہو سکتا ہے۔
لیکن نہیں میں بھی اگر بھائی کی طرح باہر گیا تو مجھے بھی نامعلوم افراد مار دیں گے اور پھر میری میت پر بھی میرے ماں باپ اور بہنیں روئیں گی۔ نہیں نہیں مجھے کچھ نہیں کرنا، میں گھر پر ہی رہوں گا باہر گیا تو بھائی کی طرح مار دیا جاؤں گا۔ بچہ یہ سب اپنے رو میں بول رہا تھا اور میں سوچ رہی تھی کہ ہم ان معصوم ذہنوں کو اتنی سی عمر میں کیا دے رہے ہیں۔ ( ڈر، خوف، وحشت، بے بسی) پاس بیٹھی خاتون بہت اکتاہٹ سے کہنے لگیں کہ یہ لوگ رو رو کر تھکے نہیں، کب سے ان کا رونا پیٹنا جاری ہے میرے تو سر میں درد ہو گیا اتنا وقت ہو گیا جنازہ میں اتنی تاخیر کیوں کر رہے ہیں۔ مجھے ان خاتون کے انداز پر افسوس سے زیادہ حیرت ہوئی کہ یہ کس قسم کے لوگ ہیں جو مرگ کو اور جنازہ کو ایک فارمیلٹی سمجھ کر نبھانے آئے ہیں۔ آپ کسی کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتے تو نمک بھی مت چھڑکیں۔ خیر ایسے لوگوں کو جن میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہ ہو ان کو یہ سب کہنا فضول ہوتا ہے۔ بچہ پاس بیٹھا یہ سب سن رہا تھا لیکن اس کا ذہن شاید اپنی پریشانیوں میں گھرا تھا اس لیے چپ تھا۔
وقت کا کام ہے گزرنا اور وقت اپنی رفتار کے مطابق گزر رہا تھا کہ اچانک ایک دن مسجد میں اعلان ہوا کہ فلاں صاحب کے جوان بیٹے اس دارفانی سے رخصت ہو گئے ہیں۔ میں پہلی فرصت میں ان کے گھر گئی تو اس جوان کی ماں اور بہن زارو قطار رو رہیں تھیں۔ جو منظر کچھ سال پہلے دیکھا تھا وہی آج پھر سے دیکھا لیکن اس منظر میں فرق تھا پہلے جوان کے گھر کی غریبی اور خستہ حالی بہت زیادہ تھی۔ اور اس کا وہ معصوم بھائی جس کو فکر معاش کے ساتھ اپنی جان جانے کا بھی ڈر تھا۔ آج کے منظر میں دکھ وہی جوان مرگ کا تھا لیکن وہاں نہ تو غربت کے ڈیرے تھے نہ خستہ حالی۔ لیکن دکھ تو دکھ ہوتا ہے۔ امیر کا ہو یا پھر غریب کا۔
جنازے کے بعد گھر جانے کی راہ لی تو باہر ایک نوجوان بچہ نے آگے بڑھ کر سلام کیا اور کہنے لگا آپ نے مجھے پہچانا؟ میں نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا تو یاد آیا یہ تو وہی بچہ ہے۔ تو وہ کہنے لگا آج یہ آنٹی اتنا کیوں رو رہی ہیں؟ کیا یہ رو رو کر تھکی نہیں ہیں؟ تو مجھے وہ لمحہ یاد آیا جب یہی خاتون اس کے بھائی کی میت پر یہ سب بول رہیں تھیں۔ اس بچے کے حافظے میں اب تک وہ باتیں موجود تھیں؟ اس بات پر مجھے کوئی حیرانی نہیں ہوئی۔ کیونکہ جس تن لاگے وہی جانے۔ ہم لوگ دوسرے کے دکھ درد کو بعض اوقات اتنا اہم نہیں سمجھتے لیکن جیسے ہی بات اپنے گھر پر آتی ہے تو سمجھ میں آتا ہے کسی کا جانا کتنا دردناک ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں آئے روز دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔
جن میں شہریوں کو قومیت، مذہب اور مسلک کی بنیاد پر مارا جاتا ہے۔ لیکن احتجاج ہمیشہ صف اول اور امیر کے نام کو رکھ کر کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ غریب جانوں کی ایک آدھ تصویر لگا کر اپنی ذمہ داری پوری کر دی جاتی ہے۔ میرا ان محب وطن پاکستانیوں سے ایک سوال ہے؟ کیا محب وطن ہونے کا ثبوت ایک جھنڈے کو سینے سے لگا کر ہوتا ہے؟ باقی کے جو غریب و مظلوم لوگ ہیں وہ کیا پاکستانی نہیں تھے؟ ان غریب خاندانوں کی کفالت کون کرے گا؟ ہیرو بنانا ہو تو مہربانی فرما کر غریب طبقے کو بنائیں۔ امیر زندہ رہ کر بھی ہیرو ہے اور مر کر بھی اور ہیرو بنانے والے کون ہیں۔ یہی ہم نام نہاد محب وطن پاکستانی جو سب جانتے بوجھتے بھی حقائق سے نظریں چراتے ہیں اور سچ کو چھپا کر جھوٹ کا ساتھ دیتے ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn