ادیان و مذاہب نے "عورت” کے ساتھ انصاف کرنے کی کوئی مستحسن کوشش نہیں کی۔ چینی ، جاپانی،ماؤازم، شنٹوازم اور بدھ مت میں عورتوں پر مردوں کو نہ صرف فوقیت دی جاتی ہے بلکہ دیوتاؤں کی طرح ان کی پرستش بھی کرائی جاتی ہے۔یہی حال ہندو مذہب کا ہے۔ جس میں عورت کو رسوا کن اور ذلت آمیز درجہ پر رکھا گیا ہے۔ اسے شعور میں آنے سے پہلے ہی بتلا دیا جاتا ہے کہ وہ مرد کی خدمت، آسائش، اور جنسی تسکین کیلئے پیدا ہوئی ہے۔ اور جب اس کا شوہر فوت ہوجاتا ہے تو اس کی زندگی بے کار ہو جاتی ہے۔ اس کیلئے مرد کی ارتھی کے ساتھ زندہ سلامت اگنی دیوی کی بھینٹ چڑھنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ دینِ موسی کے پیروکاروں اور مسیحت کے پرستاروں کے ہاں بھی عورت ایک ذلیل و کمتر مخلوق متصور ہوتی ہے۔ بلکہ تیسری صدی مسیحی تک مقتدایانِ مذہب کی مجالس میں یہ علمی مسئلہ زیرِ بحث رہا ہے کہ "عورت کے روح بھی ہوتی ہے یا نہیں؟” کیونکہ روح پاک ہے اور عورت ناپاک۔بلکہ تورات میں یہ بھی ہے کہ "عورت آدم کی پسلی سے پیدا ہوئی ہے یعنی مستقل مخلوق ہی نہیں ہے۔ اور اسی ہی اساس پر اسے شیطان کی آلہ کار کہہ کر آدم کو جنت سے نکالے جانے کا ذمہ وار گردانا جاتا ہے۔
جس طرح آج مسلم قبائلوں میں جانوروں کی طرح مبادلے اور قیمتاً عورتوں کا لین دین ہوتا ہے ۔زمانہِ قدیم کی اقوام کے ہاں بھی عورت اسی ہی حیثیت سے جانی پہچانی جاتی تھی۔ سیاسی سامراج کے نقیب ملاؤں نے شاہی درباروں میں جمع شدہ حسیناؤں کو ہبہ ، تملیک اور بخشیش کے طور پر شعراء ، ادباء، اور وابستہِ دربار علماء کو پیش کرنے کے ضمن میں باقاعدہ تفاصیل دے رکھی ہیں۔ بلکہ میزبانوں کا فرض ہے کہ ایسی حسیناؤں کو مہمانوں کی آغوش گرم کرنے کیلئے بھی پیش کردیں۔ (خلفائے عباسیہ کے انعام کرام کے ضمن میں مرتب کی گئی تواریخ میں اس کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں)۔
آج پاکستان کی عورت جس سماجی اور سیاسی ہمصری کے سٹیٹس کو انجائے کر رہی ہے وہ سٹیٹس ارتقائی منازل طے کر کے اس منزل تک پہنچا ہے۔ آج پاکستان کے ہر شعبہ ہائے زندگی میں خواتین اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔ پاکستان کی ہر سیاسی پارٹی اپنی تنظیموں میں اور انتخابی عمل میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنانے کیلئے ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان کی وفاقی کابینہ نے انتخابی اصلاحات کے ایک پیکج کی منظوری دی ہے جس کے تحت سیاسی جماعتوں کو عام انتخابات میں کم از کم پانچ فیصد ٹکٹ خواتین کو دینے کا پابند بنانے کی تجویز بھی شامل ہے۔ان اصلاحات کے تحت ہر حلقے میں خواتین کے کم از کم دس فیصد ووٹ پول ہونا بھی لازمی قرار دیا جائے گا۔
اگر ہم چند عشرے قبل کےپاکستان کا جائز ہ لیں تو ہمیں پاکستان میں عورت کا سماجی رتبہ دوسرے درجے کے شہری کے مساوی نظر آتا ہے ۔ پاکستان کی تاریخ میں عورت کے سماجی رتبے کا بھرم اس وقت کھل کر سامنے آیا جب 1965ء میں ایک فوجی ڈکٹیٹر ایوب خان نے صدارتی الیکشن لڑنے کا اعلان کیاتو پورے پاکستان میں قحط الرجال کا یہ عالم تھا کہ کوئی اس فوجی آمر کے سامنے اُمیدوار بننے کو بھی تیار نہ تھا ایسے میں ایک شیرنی کی للکار گونجی جس نے سارے عالم کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ یہ آواز محترمہ فاطمہ جناح ؒکی تھی جنہوں نے ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کرکے گویااس مردانہ ،عاشرے کی غیرت کا للکار دیا تھا۔ بس پھر کیا تھا ملا ملٹری الائنس پل بھر میں سر گرم عمل ہوگیا ۔ آمر کے پروردہ ملا ؤں نے ملک بھر میں عورت کی قیادت کے حوالہ سے طوفان بد تمیزی کھڑا کر دیا۔جب عورت کی سماجی حیثیت کو کمتر ثابت کرنے کا کوئی حیلہ کارگر نہ ہوا تو انہوں نے اسے مذہبی وار سے شکست دینے کی کوشش کی۔ قرآن کی آیات اور احادیث کو اپنے مضموم مقاصد کیلئے استعمال کیا گیا۔ ایوبی دور کے علماء کہتے تھے کہ
قرآن شریف میں واضح لکھا ہے کہ عورت عقل و دین میں ناقص ہے۔ (حالانکہ یہ خود ساختہ آیت پورے قرآن میں کہیں بھی موجود نہیں ہے)
روایات بیان کی جانے لگیں کہ نماز پڑھنے والے کے سامنے سے اگر کالا کتا اور عورت گزر جائے تو نماز فاسد ہو جاتی ہے۔ یعنی کالا کتا اور عورت ایک برابر قرار پاتے تھے۔
عورت کی پیدائش آدم کی پسلی سے ہوئی ہے۔ پسلی ٹیڑھی ہوتی ہے لہذا عورت کی اصلاح ناممکن ہے۔
عورت کا دین ناقص ہے لہذا ان کا اسلام اور ایمان ادھورا ہی تصور ہوگا۔
عورت اگر مرد کو قتل کر دے تو قصاص ہے یا مکمل دیت لیکن مرد اگر عورت کو قتل کر دے تو نہ قصاص ہے نہ ہی دیت مکمل۔ (بحوالہ تفسیر ملا جیون)
لین دین کے حوالہ سے خواتین کی آڈھی گواہی کو بنیاد بنا کر ہر شعبہ ہائے زندگی میں خواتین کی گواہی کو نصف تسلیم کرنے کے سبب خواتین کے حوالے سے یہ رویہ بن چکا تھا کہ جرم سرزد ہونے پر سدھائے ہوئے کتے کی گواہی تو تسلیم تھی مگر عورت کی گواہی کا اعتبار نہیں تھا۔
محترمہ فاطمہ جناح کو انتخابی عمل سے دور رکھنے کی جب ہر کوشش پہ پانی پھرتا نظر آیا تو ایوبی ملاں ایک حدیث لے آئے کہ ” وہ قوم ہرگز فلاح نہیں پاسکتی جس نے اپنا والی عورت کو بنایا”۔
قصہ مختصر محترمہ فاطمہ جناح ایوب خان کے خلاف الیکشن کیا لڑتیں انہیں تو اس مذہبی گند میں الجھا دیا گیا اور آمر کی کامیاب حکمت عملی کے تحت ہر خاص و عام کی زبان پر یہی خرافات تھیں جن کی زد میں محترمہ کا الیکش آ چکا تھا۔ ایسے میں دیار غیر(عراق) میں بیٹھے میرے والد گرامی حضرت علامہ رحمت اللہ طارق ؒ کی غیرتِ ملی نے گوارا نا کیا کہ قرآن حدیث کے ساتھ کھلواڑ کرکے ایک نہتی خاتون کو زچ کیا جائے۔ انہوں نے ایوبی آمریت کے اس مذہبی ہتھکنڈے کو ناکام بنانے کا عزم کیا اور چیلنج قبول کرتے ہوئے اس کا مفصل جواب جو کئی اقساط پر مشتمل تھا کراچی میں علامہ نیاز فتح پوری کو برائے ماہنامہ "نگار” ارسال کیا۔ علامہ صاحب کو یہ آرٹیکل اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے اپریل 1965ء کے ماہنامے میں اسے یکمشت ہی شائع کر ڈالا۔ اس مضمون کی اشاعت ہوتے ہی ان علمائے سُو کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی اور انہیں اپنی پوزیشن کلیئر کرنا مشکل ہوگیا۔ ان کا ریت پر تعمیر کیا گیا قلعہ دھرام سے زمین بوس ہو گیا۔ مضمون کی اشاعت کی بدولت "نگار” کا یہ ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ نکل گیا اور اس کی مزید اشاعت کے تقاضے ہونے لگے۔ یوں محترمہ فاطہ جناح کیلئے ان مذہبی گماشتوں سے نبٹنا آسان ہوگیا اور انہوں نے لوگوں کو کھل کر اسلامی اقدار کے حوالہ سے اطمینان دلایا اور بھرپور طریقے سے آمر کے سامنے ڈٹ کر کھڑی رہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ایوبی ہتھکنڈوں کے سامنے قائد کی یہ نہتی بہن تاب نہ لا سکیں اور انہیں الیکشن ہروا دیا گیا۔
تاریخ نے ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کو دہرایا اب سال تھا 1986ء اور آمر کا نام تھا ضیاء الحق ۔ وہ کیسے اس مذہبی ہتھیار کو استعمال کرنے سے چوک سکتا تھا۔ آمر کی حدف اس مرتبہ کوئی اور نہیں شہید ذوالفقار علی بھٹو کی رانی دختر مشرق محترمہ بے نظیر بھٹو تھیں ۔
ملا ملٹری الائنس پھر سے سرگرم ہوا اور پھر سے وہی روایتی گندے مذہبی ہتھیار تیز کر لئے گئے۔ شاہی مسجد کے سرکاری خطیب مولاناعبدالقادر آزاد نے کھل کر فتویٰ دے دیا تھا کہ بے نظیر کو ووٹ دینے والوں کے نکاح فاسد ہو جائیں گے۔ پھر سے وہی ناقص العقل ہونے کے قصے۔ پھر سے عورت کو ووٹ دینے کی صورت میں تباہی کی داستانیں گردش میں آنے لگیں۔ کہا جاتا تھا کہ ایک عورت تو سات دن پلید اور نجس رہتی ہے اس دوران کارہائے حکومتی کیسے انجام دے سکتی ہے؟عورت کو بدنام کرنے کے اس مکروہ دھندے میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد نواز شریف (ابو مریم) ضیا الحق کے دست راست تھے۔ انہوں نے بھٹو خواتین کی تذلیل کا کوئی حربہ خالی نہ جانے دیا۔ ننگی خواتین کے دھڑوں کیساتھ بھٹو خواتین کے سر ایڈٹ کر کے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے سے جلسہ گاہوں میں پھینکوائے جاتے تھے اور "کوکا کولا پیپسی۔ بے نظیر ٹیکسی” کے فلک شگاف نعرے ان کی موجودگی میں لگوائے جاتے تھے۔ غرض ضیاء الحق نے اور اس کے دست راست ابو مریم نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے عورت ہونے کا ہر ممکن سیاسی فائدہ اٹحانے کی کوشش کی۔
اس وقت میری عمر کوئی اٹھارہ بیس سال کے لگ بھگ تھی۔ دن رات اس اذیت میں گزر رہے تھے کہ اس بکواس کا مؤثر جواب دیا جائے۔ والد صاحب ضیاء الحق اور جماعت اسلامی کی طرف سے دائر کئے گئے مقدمات اور آئے روز کی پیشیوں سے تنگ آکر دس سال سے غریب الوطن تھےاور سعودی عرب میں مقیم تھے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ جیسے ہی انہوں نے محترمہ کے پاکستان واپسی کا سنا 1986ء میں واپس آگئے۔ وہ بھی اس صورتحال سے شدید تکلیف میں تھے۔ میں نے ان سے ذکر کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ تمہاری پیدائش سے پہلے بھی ایسی صورتحال کا سامنا محترمہ فاطمہ جناح ؒ کو درپیش تھا تو میں نے ہی اس کا جواب دیا تھا۔ مجھے اندھیرے میں روشنی کی کرن نظر آئی۔ میرے کہنے پر انہوں نے اس مضمون کو ری وزٹ کیا اور اس میں اضافہ کیا کہ تاریخ اسلام میں عورت کی حکمرانی کبھی بھی قابل اعتراض نہیں رہی ہے۔ بلکہ اس کی ایک طویل فہرست بمعہ تفصیلی حوالہ جات پیش کر دی۔ ہنگامی بنیادوں پر اس مضمون کو کتابی شکل” عورت اور مسئلہ امارت” دی۔ چنانچہ جیسے ہی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید یکم مئی 1986 کو ملتان تشریف لائیں تو پریس سے پہلی کاپی تیار کرو کر انہیں پیش کرنے کی غرض سے محترمہ نادرہ خاکوانی کی رہائش گا پر میں اپنے والد صاحب کے ہمراہ پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے محترمہ کے بیڈ کے ساتھ پڑی ہوئی سائیڈ ٹیبل پر اپنی ہی کتاب کو دیکھا۔ غالباً جس پریس (روحانی آرٹ پریس) سے چھپوائی تھی اتنی تیزی تو وہی ہی دکھا سکتے تھے۔ خیر جب محترمہ کو حقیقت حال واضح ہوئی اور انہیں کتاب کے اغراض و مقاصد کے حوالہ سے بریف کیا تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہااور انہوں نے اپنی پارٹی کی سینئر لوگوں کو کتابیں پہنچانے کا کہا۔ یہاں ایک ضمنی واقعہ بیان کرتا چلوں۔ محترمہ بے نظیر شہید نے کتاب کے حوالہ سے کی گئی اس میٹنگ کو یاد رکھا اور جب وزیراعظم بنیں تو انہوں نے ایک پروگریسو اور روشن فکر "اسلامی نظریاتی کونسل” کی تشکیل کی ضرورت کو محسوس کیا اور مولانا کوثر نیازی کو اسلامی نظریاتی کونسل کا چیئر مین بنا کر انہیں ہدایت کی کہ اسلام کا روشن چہرہ سامنے لانے کیلئے ٹیم تشکیل دیں۔ ان کی ہدایت پر مولانا موصوف ہمارےگھر تشریف لائے اور والد صاحب کو اسلامی نظریاتی کونسل کا ممبر بننے کیلئے اصرار کرنے لگے۔ والد صاحب پس و پیش کر رہے تھے کہ میں حکومتی پالیسی کے تابع ہو کر نہیں لکھ پاؤں گا۔ تاہم دوستوں کے اصرار پر انہوں نے حامی بھر لی کونسل کے اجلاس میں شرکت کیلئے اسلام آباد تشریف لے گئے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اس وقت ہمارے شہر کے ایک ایم این اے جو الیکٹبلز(لوٹا) کی کیٹاگری سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا نام ِ نامی ریاض قریشی تھا۔ ان سے ایک نظریاتی انسان کی یہ تقرری گوارا نہ ہوئی اور انہوں نے اپنے چند ہمنواؤں کو ساتھ ملا کر مولانا پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیاعلامہ صاحب کی رکنیت کینسل کرکے انکے پیش کردہ ملتان سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل قاری نور الحق کو کونسل کا ممبر بنایا جائے۔ بالآخر وہ اپنے مشن میں کامیاب ہو گئے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم نے ہمیشہ مفادات سے بالاتر ہوکر نظریات و افکار کی آبیاری کی ہے اور آج بھی کر رہے ہیں۔
خیر بات ہو رہی تھی عورت کے حوالہ سے شائع کردہ اس تحقیقی کتاب عورت اور مسئلہ امارت کی اشاعت کی۔ کتاب شائع ہوتے ہی مختلف فورمز اخبارات اور جرائد میں ایک بھرپور علمی اور مذہبی بحث کا سلسلہ چل پڑا۔ جس کا ہر فورم پر علامہ صاحب نے اور میں نے بھرپور جواب دیا۔ جواب دینے والوں میں لاہور سے تعلق رکھنے والے پروفیسر رفیع اللہ شہاب صاحب بھی شامل تھے اور یوں عورت کے سیاسی کردار پر مذہبی انگلی اٹھانے کا یہ سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفن ہوگیا۔ آج جب میں اپنے فاضل دوست حافظ صفوان چوہان کے فرمائش پر علامہ نیاز فتح پوری کے ماہنامہ "نگار ” میں شائع ہونے والےوالد صاحب کے مضمون "عورت اور مسئلہِ امارت” کے صفحات اسکین کر رہا تھا تو میرے فرزند میر عبداللہ احمد مگسی صاحب فرمانے لگے کہ آپ کس لئے یہ کر رہے ہیں؟ میں نے انہیں غایت بیان کی تو کہنے لگے کہ آج کل کی خواتین کے تو یہ مسئلے ہیں ہی نہیں انہیں اس سے کیا سروکار ہو سکتا ہے؟ سوال تو اس کا حق بجانب تھا مگر میں کہا بیٹا اگرچہ دور حاضر کی خواتین ان مسائل اور مصیبتوں سے آزاد ہو چکی ہے جن کا سامنا ہم سے پہلے کے ادوار کی مسلم خواتین کو تھا۔ تاہم نسل نو کو اس ارتقائی عمل سے آگاہی کیلئے ضروری ہے کہ گاھے گاھے باز خواں ایں قصہ پارینہ را کے مصداق ہمیں کبھی کبھی اپنی تاریخ پر نظر ڈال لینی چاہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn