تاریخ ملکوں اور حکمرانوں کے درمیان جنگوں کا مجموعہ ہے۔ جو زیادہ جنگیں لڑتا ہے اوہ زیادہ سے زیادہ انسانوں کو ہلاک کرتا بلکہ ہلاکت کی نئی نئی مثالیں بناتا۔ وہ سکندر اعظم بھی بنتا اور چنگیز خان بن کر تاریخ بن کر محفوظ ہو جاتا۔ ان جنگوں کا مقصد کہیں بھی کوئی نظریہ اور اس کی صداقت کا فروغ نہیں تھا۔ محض لوٹ مار اور اقتصادی وسائل پر قبضہ کرنا تھا…. یہ تسلسل آج بھی موجود ہے۔ وہی جنگ ہے جو جاری ہے البتہ اس کے ایک طرف تو جدید ٹیکنالوجی ہے جس نے جنگی ہتھیاروں کو تباہ کن بنا دیا ہے جو انسانیت پر مغرب کا احسان ہے۔ لیکن تاریخ کا ایک اور حقائق پر مبنی سچ ہے کہ مجبور، بے بس غرب اور پسماندہ اقوام میں جب دفاع کا کوئی مؤثر ذریعہ نہیں رہتا تو وہ ’نظریات‘ کو ہتھیار بنانے پر مجبور ہو جاتی ہیں مذہب اور حب الوطنی کے تقاضے اسی تناظر میں ہی سامنے آتے رہے یہ الگ بات کہ جب ان اقوام کو طاقت حاصل ہوئی تو وہ بھی ان نظریات سے آگے بڑھ کر نئے ہتھیاروں اور طاقت کے حصول میں شامل ہوگئیں۔
بہر حال…. جنگوں کا مقصد لوٹ مار اور وسائل پر قبضہ رہا ہے کل کی دنیا اتنی باخبر اور باصلاحیت نہیں تھی۔ ٹیکنالوجی نے اس کرہء ارض کو ”دنیا پور“ میں تبدیل نہیں کیا تھا۔ نہ ہی اس میں موجود ممالک محلوں اور کوچوں میں تقسیم ہوئے تھے بلکہ اب تو یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ان محلوں میں بھی طبقاتی تقسیم ہے ایک طرف بڑے بڑے محلات ہیں، دوسری طرف درمیانہ طبقہ ہے تو ایک گوشہ میں سفید پوشی کا بھرم ہے تو اس گاؤں سے باہر خانہ بدوشوں کی جھونپڑیاں ہیں جن میں مفلسی اور غربت کے ساتھ جہالت موسموں کی تلخی میں اپنا سر چھپاتی ہے…. باتیں تو ہر طرف انہی کی بہتری اور فلاح کی ہوتی ہیں اور انھیں آراستہ کر کے اپنے ساتھ کھڑا کرنے کا دعویٰ ہوتا ہے لیکن معاملہ کچھ اور ہے۔ اصل مقصد ان جھونپڑیوں کے نیچے چھپے ہوئے وہ خزانے ہیں جو امیروں کے محلوں اور ان کے فیصلوں کو مزید مضبوط اور بلند بنا سکتے ہیں۔ کہیں کوئی ہمدردی ہے نہ رحم دلی۔ نہ ہی دوستی اور اس کا معیار کوئی نظریہ، نہ کوئی وچار…. صرف اور مفاد ہے اور وسائل پر قبضہ اور گرفت!…. حال آں کہ اس کرئہ ارض کو ”خالق“ نے زندگی کے تحفظ اور سلامتی کے لیے ضرورت سے زیادہ وسائل دیے تھے۔ اگر انھیں دونوں ہاتھوں سے بھی استعمال کیا جاتا تو ان میں کبھی کوئی کمی آتی اور نہ ہی لوٹ مار کے لیے غیرانسانی حرکتیں کرنا پڑتیں زندگی بھی محفوظ رہتی اور انسان بھی۔ لیکن تسلط اور غلبے کی ہوس نے کرئہ ارض کو بھی تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے اور انسانیت کو بھی۔ بدقسمتی تو یہ ہے کہ خود انسان ہی اپنا اور اس کرئہ ارض پر موجود زندگی کا دشمن ہے۔
آمدم بر سر مطلب یہ سب تباہی اقتصادیات پر غلبہ کی وجہ سے آئی ہے آیندہ بھی تباہی کے جو امکانات پیدا ہوں گے ان کی وجوہ میں اولیت اقتصادیات کو ہی حاصل ہو گی۔ وہ پرانے زمانے کی باتیں ہیں جن میں تلواروں نیزوں اور بھالوں کی باتیں ہوتی تھیں اب تو بات بندوق اور سنگین سے بھی آگے بڑھ کر ایٹمی میزائلوں اور بموں سے بھی آگے بڑھ چکی ہے اب کسی ملک پر یلغار کی ضرورت باقی نہیں رہی اب تو اس کے وسائل پر قبضہ اور انھیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہے اب تو عراق اور افغانستان پر قبضہ بھی پرانی باتیں ہو گئی ہیں اب تو ان فتوحات سے ملنے والا مالِ غنیمت اور اس کی تقسیم ہے البتہ یہ اندیشہ بہ ہر حال موجود ہے کہ اگر تیسری بڑی جنگ ہوئی تو وہ مالِ غنیمت کی تقسیم پر ہو گی غریب اور پسماندہ ملک اس میں خواہ مخواہ پس جائیں گے البتہ فی الحال اس کا کوئی امکان نہیں کیوں کہ ابھی تو مالِ غنیمت کی تقسیم مکمل نہیں ہوئی بلکہ اس تقسیم میں مزید تیس چالیس سال لگ سکتے ہیں اور پھر کچھ اور وسائل بھی ہیںجن پر ابھی گرفت ہونا ہے اس کے لیے وقت، محنت اور انسانیت کی تباہی بھی درکار ہے۔
حرفِ آخر کی صداقت کا ایک پہلو جغرافیہ بھی ہے جو باعث نزاع بھی ہے اور بہترین دفاع بھی۔ اسی تناظر میں پاکستان کو دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہی جغرافیہ ہے جس کے باعث پاکستان پچھلے تیس سال سے دہشت گردی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ نئی صدی کے آغاز تک اسے اسی لیے توڑنے کی باتیں ہوتی رہی ہیں یہ تو خوش قسمتی ہے کہ ایسی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں مگر اس کا ایک اور پہلو بھی ہے کہ پاکستان کی توڑ پھوڑ کے اثرات یقینا ارد گرد بھی ہونا لازم تھے یعنی اگر پاکستان کی تقسیم ہوتی تو افغانستان ایران اور بھارت بھی اس کی زد میں آتے۔ جو انٹرنیشنل مافیا کے لیے سودمند نہیں تھا بلکہ اس کو سنبھالنا بھی مشکل ہو جاتا۔ یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ پچھلی صدی میں مشرق وسطیٰ کی جو تقسیم ہوئی تھی اس کے نتائج جس طرح اب سامنے آ رہے ہیں وہ ناقابل برداشت ہو رہے ہیں۔ یاد ہے کہ 1947 میں ہونے والی ہندوستان کی تقسیم پر صرف پچیس سال بعد نظرثانی کرنا پڑی تھی اور وہ محض اس لیے قابل عمل ہو گئی تھی دونوں پاکستان تہذیبی اور ثقافتی لحاظ سے بھی مختلف تھے اور ان کے درمیان ایک ہزار میل سے زیادہ کا فاصلہ بھی تھا۔ یہ پاکستان سرحدی لحاظ بھی جڑا ہوا ہے اور اس میں ایک مخصوص تہذیب و ثقافت کو بھی فروغ دیا گیا ہے جو اس کی وحدت کی علامت بھی بنا ہوا ہے۔ چناں چہ یہی وہ صورت حالات تھی جس میں عالمی مافیا کو اپنی ترجیحات تبدیل کر کے اس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی روش اختیار کی گئی۔ دہشت گردی کے وہ مراکز جنھیں افغانستان اور وسطی ایشیا کے وسائل پر قبضہ کرنے کو استعمال کیا گیا تھا انھیں اہداف بنایا گیا تا کہ ان وسائل کے ہندوستان اور پاکستان کی بندرگاہوں کے ذریعہ اقتصادی فوائد حاصل کیے جائیں۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں پاکستان کے شمالی علاقوں میں دہشت گردی کے مراکز ختم کرنے اور پر امن راستوں کی تشکیل کے لیے اپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا جس میں بتدریج کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں انھیں اگلے ایک دو سال میں مکمل طور پر کامیاب بنانا ہے۔ کیوں کہ پاکستان کی بندرگاہیں گوادر، کراچی، پسین اور پورٹ قاسم، اگلے چند سالوں میں کچھ اور بندرگاہیں بھی سامنے آئیں گی…. یہ بندرگاہیں وسطی ایشیا اور چین کی اقتصادی ضرورتیں ہیں اسی تناظر میں ہی عالمی اقتصادی قوتیں اور مالیاتی ادارے یہاں تیزی سے سرمایہ کاری کر رہے ہیں جب کہ کچھ قوتیں کراچی میں بدامنی پھیلا کر اس کو روکنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپریشن ضرب عضب کے دو بڑے مرکز ہیں ایک قبائلی علاقہ جات اور دوسرا کراچی…. لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ دیگر علاقوں کو نظرانداز کر دیاجائے گا۔ کیوں کہ عالمی اقتصادی مافیا کو جنرل ضیاءالحق کا انتہاپسند اور دہشت گرد پاکستان نہیں ترقی پسند، لبرل اور پرامن پاکستان چاہیے…. دلسچپ بات تو یہ ہے کہ لبرل پاکستان کی باتیں اس وزیراعظم کے منہ سے کہلوائی جا رہی ہیں جو جنرل ضیاءالحق کے دست راست تھے اور جن کا خاندان طالبان کا ہم فکر ہونے کا دعویٰ کرتا تھا اسے اقتدار پرستی بھی کہا جا سکتا ہے اور حکم حاکم مرگ مفاجات بھی…. لیکن…. گوادر میں چین کی آمد، اسے تجارتی شہر بنانے، اپنی مصنوعات کی برآمد کا سب آفس بنانے کی دیگر وجوہ کے ساتھ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بین الاقوامی تجارت کا پچاس فی صد صرف چین میں تیار ہوتا ہے اور وہ اس کی ترسیل کا نزدیک ترین ٹھکانا بنا کر مشرق وسطیٰ، افریقا اور یورپ کے تین ارب افراد تک رسائی چاہتا ہے ویسے بھی اسے بحرہند میں ایک بندرگاہ کی اشد ضرورت ہے جسے وسیع تر مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہو۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn