حیدرآباد میں قدم گاہ سے تھوڑا آگے اور ریلوے اسٹیشن سے پہلے کچھ لوگ ریڑھے لگائے لنڈے کا سامان بیچتے ہیں اور ساتھ ساتھ ایک اور کام بھی کرتے ہیں وہ یہ کہ آنے والے گاہکوں اور قریب گذرنے والے راہ گیروں میں سے جس کے چہرے پر کوئی داغ، دھبہ، کیل، چھائیاں یا کوئی نشان وغیرہ ہو تو اسے آواز دے کر پاس بلاتے ہیں اور ہمدردانہ انداز میں پوچھتے ہیں کہ صاحب یہ آپ کے چہرے پر نشان کتنی مدت سے ہیں؟ ان کا کبھی علاج کروایا ہے آپ نے؟ میں آپ کو اس مسئلے کا حل بتاؤں؟
کوئی شخص اگر اپنے اس مسئلے کو لے کر واقعی سنجیدہ ہوتا ہے تو اس ریڑھے والے کے سوالات کے جوابات دیتا ہے اور اس کی ہاں میں ہاں ملانے لگ جاتا ہے، پھر یہ ریڑھے والا اس کو قریب بازار میں ایک حکیم صاحب کا پتا دیتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ ایسا علاج کریں گے کہ آپ کے چہرے سے یہ نشان ایسے غائب ہوجائیں گے جیسے کبھی تھے ہی نہیں! اور پھر یہ صرف مشورے تک ہی نہیں رکتا بلکہ ریڑھے سے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے چلیں آئیں میں خود آپ کو حکیم صاحب تک پہنچا دیتا ہوں۔ وہ شخص دل ہی دل میں یہ سوچتا ہوا اس کے پیچھے پیچھے چل پڑتا ہے کہ آج کل کے دور میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو اپنا کام دھندہ چھوڑ کر دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔
بالآخر یہ دونوں حکیم صاحب کے پاس پہنچتے ہیں اور ریڑھے والا وہاں بھی اس کی معاونت جاری رکھتا ہے اور حکیم صاحب کو کہتا ہے کہ ان کو فلاں مرہم اور فلاں دوائی بھی دیجیے۔ وہ شخص جو گھر سے کسی اور کام سے نکلا تھا گھر واپس جاتے ہوئے اتنی محبت، خلوص اور ہمدردی سمیٹے واپس گھر کی راہ لیتا ہے جب کہ اس کے ہاتھ میں اپنے چہرے کے دیرنہ مسئلے کا حل بھی موجود ہوتا ہے۔ زیادہ تر لوگ دوائی کے ایک یا دو دن کے استعمال کے بعد ہی سمجھ جایا کرتے ہیں کہ انہیں الفاظ کی میٹھی چھری سے ذبح کیا جاچکا ہے اور ان کی جیب کو دو سے ڈھائی ہزار کا چونا لگ چکا ہے۔ 2014ء میں مجھے بھی ایک ایسے ہی ریڑھے والے نے آواز دی تھی مگر میں نے جب دیکھا کہ جس کے اپنے چہرے پر اتنے نشان ہیں وہ بچارہ مجھے کیا حل بتائے گا۔ وہاں تو میں اپنی عقل کا استعمال کرکے اس دھوکے بازی سے بچ گیا مگر دوسری جانب میں آج بھی دھوکے پہ دھوکے کھا رہا ہوں، جب بھی انتخابات کا موسم آتا ہے تو بڑے بڑے لوگ میرے پاس آ کر کہتے ہیں کہ ہم تمہارے مسائل سے بخوبی واقف ہیں، ہم جانتے ہیں کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ ہے، بےروزگاری ہے، بھوک ہے، امن و امان خراب ہے، تعلیم کا معیار نہیں، صحت کی سہولیات نہیں۔ مگر اس بار تم ہمیں ووٹ دو ہم تمہارے یہ سب مسائل حل کروا دیں گے۔
میں ان پر یقین کرلیتا ہوں اور اپنے آج میں اس سنہرے کل کے خواب دیکھنے لگ جاتا ہوں جو ان سب مسائل سے آزاد ہو۔ انتخاب کے دن میں بیلٹ پیپر پر اپنے اس ہمدرد کے انتخابی نشان پر ووٹ لگا کر انتہائی مسرت محسوس کرتا ہوں کہ آج کے بعد میرے مسائل حل ہونا شروع ہوجائیں گے۔ مگر مجھے اور میری طرح کے اکثر لوگوں کو انتخابات کے کچھ ہی عرصے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا قیمتی ووٹ کسی کے الفاظ کی میٹھی چھری کی زد میں آ گیا اور ہماری جیب (ٹیکس) کو اچھا خاصہ چونا لگ چکا ہے۔ اس بار ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جو بھی امیدوار پچھلی مرتبہ کی آزمائش میں ناکام رہے انہیں ہرگز ہرگز ووٹ نہیں دینا اور جو لوگ اپنے کیے ہوئے عہد پر پورا اترے وہی ہمارے قیمتی ووٹ کے حق دار ہوں گے۔ آپ بھی یاد رکھیں کہ یہ ضروری نہیں کہ جو آپ کو آپ کے مسائل گنوائے وہ حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہوگا، حل صرف اس فیلڈ کے ماہر کے پاس ہو گا اب یہ اپ کی ذمےداری ہے کہ آپ اپنے مسائل کے حل کے لیے کوئی چرب زباں سیاست دان منتخب کرتے ہیں یا کوئی ماہر سیاست دان
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn