عمران خان نے مزار پر حاضری کیا دے دی ہر طرف سے عجیب و غریب باتیں سننے کو مل رہیں ہیں۔ بدعت بدعت کا شور ہر طرف سنائی دیا جا رہا ہے۔ کچھ لوگ عمران خان کا مزار پرماتھا ٹیکنے کو زن مریدی کہہ رہے ہیں۔ (جو کہ ہمارے ملک کے مرد کم ہے کرتے ہیں لیکن جو یہ نیک کام سرانجام دے لے وہ بھی زن مریدی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرتا ہے)۔ دوسری جانب وہ لوگ ہیں جو خان صاحب کے اس عمل کو وزیراعظم کا عہدہ حاصل کرنے سے جوڑ رہے ہیں۔ لیکن ایک اور بھی طبقہ ہے جو اس بات پر سراپا احتجاج بنا ہوا ہے اور عمران خان کو جہنم کا سرٹیفکیٹ بھی دے چکا ہے۔ لیکن پھر بھی غصہ کم ہونے کو نہیں آ رہا۔ اس میں قصور اس غریب عوام کا بھی نہیں کیونکہ ہماری ریاست نے ہمیشہ مذہب کو ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ہماری بنیادیں دیمک زدہ اور بوسیدہ ہیں۔ ان دراڑوں کی آبیاری ہمیشہ فرقہ واریت اور نشانے بازی کی گئی۔ ایسی صورت میں عوام کا ردعمل کوئی اجنھپے کی بات نہیں۔ لیکن عوام اتنی کم عقل اور حقائق سے نابلد بھی نہیں کہ اپنی سوچ سے کام نہ لے۔
وہ لوگ جو عمران خان کے عقیدہ کو لے کر غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں ان سے گذارش ہے کہ سیاست اور مذہب کو الگ الگ رکھیں۔ دونوں کو ایک جگہ اکٹھا کر کے سیاست کو مذہبی منافرت کی نظر نہ کیا جائے اور نہ ہی مذہب کو سیاسی رنگ دے کر انتشار پھیلایا جائے۔ کیونکہ اس ملک مذہب اور عقائد کے نام پر جتنی اجارہ داری ہوئی ہے شاید ہی کسی اور بات پر ہوئی ہو۔ ہر مکتب کے افراد نے مذہب کی آڑ میں سیاسی مقاصد بھی حاصل کیے، ذاتی مقاصد بھی اور معاشی مقاصد بھی اور بدستور کر رہے ہیں۔ اور سب سے اہم بات مذہب کے نام پر لاشوں پر لاشیں گرانے کی بدعت کہاں سے پروان چڑھی؟ کیا وہ بدعت ایجاد کرنے والے مذہبی نہیں؟ کیا مذہب کے نام کا لبادہ اوڑھ کر نت نئے فتوے جاری نہیں کیے جاتے؟ ان پر افسوس کرنے والے نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ تب کیا سب سوئے ہوتے ہیں۔
ہر وہ فرد جو کسی کے کے بھی عقیدے پر طنز کرتا ہے میرے نزدیک وہ جہالت کے علیٰ درجے پر فائز ہے کیونکہ عقیدہ ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کے عقائد پر انگلی اٹھائے۔ آپ کو ہمیشہ اپنا قبلہ ہی درست لگتا ہے۔ آپ کو کس نے اس درستی کا سرٹیفکٹ دیا ہے؟ اگر آپ کے پاس یہ سرٹیفکیٹ ہے تو مہربانی کر کے آپ کی نظر میں جن کے عقائد درست نہیں ان کو بھی وہ جگہ بتا دیں تاکہ وہ بھی آپ کے ساتھ جنت کی سیر کر لیں ورنہ آپ جس کو دل چاہے جہنم تک چھوڑ کر آتے ہیں۔ اگر کوئی بھی شخص جو اپنے عقیدے کی رو اور عقیدت کی بناء پر کسی بزرگ کے مزار پر سلام کرتا یا پھر ماتھا ٹیکتا ہے تو آپ کو اس سے کیا مسئلہ ہے۔ اگر تو اس نے آپ کو اپنے ساتھ یہ عمل کرنے پر مجبور کیا ہے تو پھر آپ کی اچھل کود کرنے کا مقصد بھی سمجھ آتا ہے۔
ایک بات سمجھ آئی کہ بحیثیت قوم ہم نے اپنے سیاست دانوں سے اور کچھ سیکھا ہو نا ہو لیکن ذاتیات پر کیچڑ اچھالنا ضرور سیکھا ہے۔ یہ بھی ایک بدعت کے زمرے میں آتا ہے کسی کی ذات پر بات کرنا اس پر طنز کے تیر برسانا۔ ہم تو ایسے مذہب کے پیروکار ہیں جو دوسرے ادیان کو برا بھلا کہنے سے منع کرتا ہے اور ہم لوگ ایک مذہب کے پیروکار ہو کر اور ایک ملک میں رہ کر ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر سکتے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn