آج کسی حد تک مطالعہ کر چکنے کے بعد "تسطیر” پر اپنی رائے تحریر کرنے بیٹھی ہوں تو ایک واقعہ بار بار ذہن میں ایسے عود عود آ رہا ہے جیسے ابھی کی بات ہے۔ اس حادثہ نما واقعہ کا تعلق تسطیر سے کیوں کر جوڑ رہی ہوں؟ اس کا اندازہ پڑھ چکنے کے بعد بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ کئی برس پہلے کی بات ہے سری لنکا کے دارالخلافہ کولمبو میں دوران قیام وہاں کی روایتی پھیکی دال اور پاپڑ نما کوئی شے(جس پر روٹی ہونے کا سنگین الزام تھا) سے قدرے تنگ ہو کر معدہ کی طبیعت اور منہ کا ذائقہ غیر معینہ مدت کے لئے ہڑتال پر جاچکے تھے، سو اس پریشان کن صورت حال سے نپٹنے کے لئے ہم دیسی کھانے کی تلاش میں بالآخر ایسے ریسٹورنٹ پہنچے جس کے بارے بتایا گیا تھا کہ وہاں مختلف ممالک کے پکوان باآسانی دستیاب ہیں۔
مینو کارڈ ہاتھ میں لیتے ہی نظر اسپائسی ماؤنٹین چکن پر پڑی۔”ہم دیسی لوگ مرغ کا نام پڑھ لیں تو اس کے بعد آگے پیچھے کچھ اور سوچنے اور جاننے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اور نا ہی ایسی نوبت آنے دیتے ہیں”۔ قصہ مختصر چٹ پٹا پہاڑی مرغ پیش کیا گیا اور اور خوب سیر ہو کر کھایا گیا۔ ذائقے میں اس قدر لذیذ تھا کہ اگلے کئی دن پہاڑی مرغ ہی کھاتے رہے۔ جو لوگ سری لنکا کا سفر کرچکے ہیں ضرور جانتے ہوں گے کہ سری لنکن لوگ دل و جان سے پاکستان قوم کی عزت کرتے ہیں۔وجہ تامل باغیوں سے خانہ جنگی کے دوران وہ مدد اور ساتھ ہے جو مملکت پاکستان خاص کر افواج پاکستان کی طرف سے دیا گیا۔بازار سے لے کر پبلک ٹرانسپورٹ اور قیام و طعام تک ہر جگہ اس محبت اور تکریم احسان مندی کا اظہار جابجا نظر آتا ہے۔
سو ایک دن پہاڑی مرغ کھانے واسطے جاتے ہوئے ٹیکسی ڈرائیور کے ساتھ دوران گفت و شنید ایک حقیقت ہم پر ظالمانہ طور ایسے آشکار ہوئی جیسے ایٹم بم سیدھا سر پر آن گرا ہو۔وہ اندوہناک حقیقت یہ تھی کہ "ماؤنٹین چکن سالا مینڈک (ڈڈو) کے گوشت سے بنتا ہے”۔
‘ہائے او ربا اے کی کیتا جے” کہتے ہوئے ابکائیاں کرتے، مرتے واپسی کا راستہ لیا۔طبیعت میں موجود ازلی بیماری کھوج اور تحقیق کے مارے یہ بھی پتا چلا کہ یہ ماؤنٹین مرغ درحقیقت ملک ویسٹ انڈیز کے روایتی پکوانوں میں سے ایک ہے۔اگلے کئی سال کس اذیت میں گذرے اس پر تفصیل سے پھر کبھی بات ہوگی۔ بس مختصراََ یہی کافی ہے کہ آج تک سارے مرغ(زندہ ،ذبح شدہ ہمیں مینڈک مینڈک نظر آتے ہیں اور تمام مینڈک مرغ۔
قسمت کی مہربانیاں دیکھیے کہ جس جگہ میں رہائش پذیر ہوں وہاں انسانوں سے کئی گنا زیادہ تعداد میں مینڈک پائے جاتے ہیں۔کاش کہ مینیو کارڈ میں دیے گئے اجزاء پڑھ لیے ہوتے تو یہ خوف ناک تاریخ رقم نا ہوئی ہوتی۔اس واقعے سے جو سبق ملا وہ یہ کہ بناء پڑھے، بناء جانے رائے دینا یا کچھ بھی آزمانا کسی طور بھی صحت مند رویہ نہیں ہے۔اور جب بات ہو کسی بڑے نام سے جڑی بڑی ادبی کاوش کی تو ایسے میں بنا مطالعہ کیے رائے لکھ دینے سے حق کاوش ادا کیسے ہوسکتا ہے بھلا۔
اب ہم پہنچے اصل مدعا پر۔تسطیر شمارہ 4: 2018۔
اپنی اشاعت کے تیسرے ہی دن موصول ہوا۔ایک خوب صورت سرورق اور بہت سے عمدہ پرانے اور نئے قلم کاروں کی تحاریر پر مشتمل خوب صورتی سے سجا سجایا "تسطیر” ہاتھوں میں آیا تو خوشی اپنی تمام تر حدوں کو پھلانگتے ہوئے کسی الہڑ مٹیار کی طرح یہاں سے وہاں لہکتی ہوئی محسوس ہوئی۔ رمضان کریم کی مصروفیات کے باعث مطالعہ کرنے کا موقع نہ مل سکا۔مگر عید کے دن سے آج تلک کافی حد تک پڑھ چکنے کے بعد آج لگا اب اپنی رائے لکھ کر حق توقیر اور حق تخلیق ادا کیا جاسکتا ہے۔نصیر احمد ناصر اور گگن شاہد کی بے لوث ادبی کاوش” تسطیر” نا تو میرے تعارفی الفاظ کی محتاج اور نہ ہی میرے تعریفی الفاظ اس قابل کہ حق کاوش ادا ہو سکے۔”تسطیر” ایک بہترین اردو جریدہ جس میں دنیاء ادب کے نامور ادیبوں کے ساتھ ساتھ مجھ جیسے نئے/ نالائق ادبی طالب علموں کی کوشش کو شامل کر کے حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔
"تسطیر” کو میں ایک سمندر کی طرح وسیع تر دیکھتی ہوں، جس کو پڑھ کر ہر طرح کے قاری کے ذوق مطالعہ کی تسکین ہوتی نظر آتی ہے۔بات شعر وسخن کی ہو، نثر کی ہو،افسانہ ہو یا سفرنامہ،ادب کے سب ہی رنگوں سے مزین یہ جریدہ ہر قاری کے معیار مطالعہ پر اپنی تمام تر بلندیوں سمیت پورا اترتا ہے۔
نصیر احمد ناصر اور گگن شاہد کی تہہ دل سے مشکور کہ اشاعت کے آخری مراحل پر میری کوشش کو شامل کرکے مجھ ناچیز کو عزت بخشی۔ نصیر احمد ناصر،گگن شاہد اور وہ تمام ممبران جو اس کاوش کے تکمیلی مراحل میں شامل ہیں، رب کائنات آپ سب کو آپ کے حوصلوں کے ساتھ سلامت رکھے۔
دعا کے ساتھ ساتھ کامل یقین ہے کہ یہ تعمیری ادبی سلسلے ہمیشہ ایسے ہی قائم و دائم رہیں گے۔
(حادثہ پہاڑی مرغ کس کے ساتھ پیش آیا یہ ایک تاریخی راز ہے۔قارئین سے التماس ہے اس واقعے کو کسی بھی نام اور شخصیت سے نا جوڑا جائے)
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn