Qalamkar Website Header Image

معقول یا مقبول سیاست

آپ یہاں رہیں گے نہیں تو ہماری غمی خوشی میں کیسے شریک ہو ں گے؟
اپنی پارٹی کے نامزد امیدوار کے طور پر انتخابی مہم میں مجھ سے پوچھا جانے والا سب سے مقبول سوال یہی تھا۔ میری رہائش وفاقی دارلحکومت میں تھی اور پارٹی نے مجھے میرے آبائی حلقے سے امیدوار نامزد کر رکھا تھا ۔درمیانی فاصلہ تین سو کلو میٹر سے کم نہ تھا ۔ مگر یہ نہ سمجھئے کہ میں یا میرا خاندان کسی بھی طور بھی انتخابی وڈیرا شاہی کا حصہ ہے ۔یہ وہ زمانہ تھا کہ عام سیاسی کارکن بھی اپنے خلوص اور اہلیت کی وجہ سے پارٹیوں کی قیادت کی نظر میں ہوتے تھے ۔ یہ سمجھ لیں کہ پارٹی کی نظر تھی کہ میں انتخابی عمل میں شامل تھا۔

سیاسی عمل پُرامن اور بلوغت آمادہ ہوا کرتا تھا چنانچہ سوال جواب کہیں بھی نقص امن کا سبب نہیں بنتے تھے۔ میں اس سوال کے جواب میں پوچھنے والے سے سوال کیا کرتا تھا کہ اُس کی غمی خوشی سے کیا مراد ہے؟ جس کا جواب عموما شادی مرگ وغیرہ ہی ہوا کرتا تھا۔ چنانچہ مجھے عوام کے حقیقی مسائل پر گفتگو کا موقع میسر آتا تھا۔ میں بتایا کرتا تھا کہ عوام کی حقیقی غمی بنیادی انسانی ضروریات اور حقوق کی عدم دستیابی ہے اور اس عدم دستیابی کی بہت سی وجوہات میں سے سب سے بڑی وجہ ریاستی معاملات میں عوام کی حقیقی نمائندگی نہ ہونا ہے۔ جمہوری زمانوں میں بھی اگر عوامی ایوانوں کی ہئیت ترکیبی کا جائزہ لیا جائے تو ان میں عوام میں سے وہاں تک پہنچنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر نظر آتی ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ دُکھ جب تک جھیلا نہ جائے، اُس کی شدت سمجھ آتی ہے اور نہ ہی اُس کا حل سجھائی دیتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  فوری عام انتخابات کا مطالبہ - کس کا نفع کس کا نقصان؟

انتخابی وڈیروں اور نظریاتی کارکنوں کی بحث زمانوں سے جاری ہے اور اس موضوع نے ہمیشہ احتجاج، ہڑتالوں اور مزاحمتوں کا رُخ اختیار کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں قیادت، تنظیمی ڈھانچہ اور عوامی حمایت ہر سیاسی جماعت کے وجود کو تشکیل دیتی ہے جبکہ نظریہ یا بیانیہ اُس وجود میں روح پھونکتا ہے لیکن کون انکار کر سکتا ہے کہ سیاسی جماعت تشکیل ہی انتظام حکومت سنبھالنے کی کوششوں کے لئے دی جاتی ہے۔ حقیقی جمہوری ملکوں میں اس غرض سے سب اہم بنیاد رائے عامہ کی اپنی موافقت میں ہمواری ہوتی ہے ۔یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ حقیقی جمہوری ملک ہونے کے لئے عوام میں صاحب الرائے ہونے کی اہلیت ہونا بنیادی امر ہوتا ہے۔

جہاں تک سیاسی جماعتوں کی بات ہے تو حالت یہ ہے کہ مقبولیت کے آسمانی دعووں والی جماعت دہائیوں پر محیط اپنے عرصہ عمر میں قومی اسمبلی کے ۲۷۲ امیدوار بھی نہیں تیار کر سکی باقی ایوانوں کی بات جانے دیں اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ قیادت کے مرکز میں آئے روز کارکنوں کی جانب سے دھرنے جاری ہیں ۔انتخابی وڈیرے یا نظریاتی کارکن وہی زمانوں سے جاری بحث۔باقی جماعتوں کی بات جانے دیں ہماری تین بڑی جماعتیں بھی رائے عامہ کو آج تک نہیں بتا سکیں کہ عوام کی حقیقی خوشی غمی کیا ہے اور اسے حاصل کیونکر کیا جاسکتا ہے۔ آج بھی شادی مرگ، پرچوں ضمانتوں، ڈیرے داریوں اور چوہدراٹوں جیسی بنیادوں پر انتخابی وڈیرا شاہی کا نظام جاری ہے۔ جماعت کوئی بھی ہو نظریہ کوئی بھی ہو حکومت کی نوعیت کیسی بھی ہو یہی انتخابی وڈیرا شاہیاں کبھی ایک اور کبھی دوسرا جھنڈا تھامے ایوانوں میں آ پہنچتی ہیں۔ ان کا عوام کے حقیقی مسائل اور اُن کے حل کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا بلکہ یہ عوامی مسائل کو بھی اپنے مفاد میں استعمال کرنے کے چیمپئین ہوتے ہیں اور حالات کو جوں کا توں رکھنے کے آلہ کار۔

یہ بھی پڑھئے:  حاجی صاحب

انتخابات ایک دفعہ پھر سر پر ہیں میری رائے دہندگان سے ایک ہی درخواست ہے کہ نظریے، جماعتیں اور بیانئے ایک طرف رکھیں اور اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے یہ ضرور دیکھ لیں کہ جس کے حق میں وہ اسے استعمال کر رہے ہیں اُس کا اُن کے حقیقی مسائل غربت ، جہالت،ناانصافی ،بےروزگاری ،امراض کو بھگتنے کا کوئی تجربہ بھی ہے یا اُس سے مختلف کسی دنیا کا باسی ہے ۔امیدواران مقبول سیاست کیا کرتے ہیں میرے خیال میں رائے دہندگان کو کم از کم ایک دفعہ معقول سیاست ضرور کرنا چاہیے ۔

حالیہ بلاگ پوسٹس