امیرالمومنین حضرت علی ابنِ ابی طالب علیہ اسلام تاریخِ اسلام کی وہ عظیم اور منفرد شخصیت ، جن کی عظمت و بلندی کے اپنے بیگانے، دوست دشمن سب ہی معترف ہیں۔ آپ نے نبوت کی تجلیوں میں آنکھیں کھولیں، رسالت کی فضاؤں میں پروان چڑھے۔ آپ نے ایک طرف علم کی سر پرستی سے نوحِ انسانی کے کارواں کو آگے بڑھایا اور دوسری طرف اپنی بصیرت ،قوتِ فہم اور تائیدِ ربانی سے حق اور باطل میں امتیازی حدود قائم کر کےایک نئی تہذیب اور نئے طرزِ فکرکی داغ بیل ڈالی۔ تاریخ شاہد ہے کہ مکہ کی پُر آشوب زندگی میں جب کفارِ قریش کی دل آزاری و ایذا رسانی حد سے بڑھ گئی تھی اور پہاڑ کی ایک کھائی کے علاوہ کہیں سر چھپانے کی جگہ نہ رہی تھی ، آپ نےاپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر پیغمبرِ اکرم ﷺ کے سینہ سپر رہے اور ایک لمحے کے لیے بھی ان سے علیحدگی گوارا نہ کی۔
باطل قوتوں کے ٹکراؤ کے باوجود اسلام اور اس کے اخلاقی تہذیبی، اورفکری نظریات کی حفاظت کرتے رہے جس کا ثبوت ان حقائق و معارف کی صورت میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے جو آپ کے حکمت آگیں کلمات و خطبات پہ مشتمل ہے۔ غرض آپ کا پورا دورِ حیات ادائے فرض کی تکمیل ، دینِ اسلام کے احیاء اور اس کے تحفظ و استحکام میں گزراجنہیں کوئی مورخ نظر انداز نہیں کر سکتا
اگر ان خدمات کا تذکرہ تاریخِ اسلام سے الگ کر دیا جائے، تو اسلامی تاریخ کا ہر واقعہ ادھورا اور ہر نقش دھندلا نظر آئے گا اگرچہ ہر دور میں آپ ؑ کی خدمات پہ پردے ڈالے گئے مگر آپ کی شخصیت پہلے سے زیادہ اُبھر کے سامنے أئی۔
علی علیہ اسلام ایسی ہستی جن میں متضاد صفات اپنے کمال پر نظر آئیں ورنہ اگر کوئی عابد و زاہد ہوتا ہے تو میدانِ جنگ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا اگر کوئی میدانِ جنگ کا شیر ہوتا ہے تو دوسرے میدانوں میں عمل دخل کم ہو گا۔ لیکن امیرالمومنین ؑکو اگر کوئی محرابِ عبادت میں دیکھے، ریاضت کے میدان میں دیکھے، کشفِ حجابات میں دیکھے تو علیؑ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ میں زمین سے زیادہ آسمان کے راستوں سے واقف ہوں۔
مسجدِ کوفہ سے بلند ہوتی وہ صدائیں سلونی سلونی قبل ان تفقدونی پوچھو جو پوچھنا ہے قبل اس کے کہ میں تمہارے درمیان نہ رہوں کائیات میں یہ دعویٰ ان کے علاوہ کسی نے نہیں کیا۔
اگر کوئی مولائے کائنات کو رات کی تاریکی میں دیکھے تو محتاجوں کا، یتیموں کا، بیواؤں کا ملجا و ماویٰ ہے جو اپنی پُشت پر اناج لاد کر لے جاتا ہے۔
ایک ایسا عارف کہ قیامت تک جتنے بھی سلسلے ہیں چاہے تصوف کے ہوں، چاہے ولایت کے ہوں، چاہے عرفان کے ہوں جب تک اپنا سلسلہ مولائے متقیان سے نہ جوڑ لیں نہ ان کا تصوف مکمل، نہ ان کادعویٰ مکمل، نہ ان کی عرفان کی منزلیں مکمل ہوں گی۔ شجاعت کا میدان ہو تو آپ ہر مجاہد کے دل کی دھڑکن بن جائیں ۔۔۔ لیکن آپ کی شجاعت بے مہار نہیں تھی۔ علی علیہ اسلام وہ کامل ہستی ہیں جس کے دشمن سب سے زیادہ ہیں اس کا اندازہ اس بات سے سے لگائیں کہ چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی علی ؑ سے پیار کرنے والوں کے ساتھ ، محبت رکھنے والوں کے ساتھ کیسا ظلم کیا جا رہا ہے تو اندازہ لگائیے کہ اُس وقت کیا حالت ہو گی ۔تاریخ و حدیث اس دور میں مرتب ہوئی جب علیؑ کا نام لینا بھی جرم تھا اور ایسے پُر خطر دور سے گزرنے کے بعد حق کا حیرت انگیز معجزہ ہے کہ ایسے دور میں لکھے جانے والی کتب و حدیث و تفسیر و تاریخ میں جن جن لوگوں کے فضائل کے انبار لکائے گئے اُن کے فضائل کہیں نظر نہیں آتے اور علیؑ جن کا ذکر بھی ممنوع تھا ان کے فضائل کا شمار ممکن نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ دوستوں نے فضائل چھپائے اپنی جان و مال وعزت کے تحفظ کے لیے اور دشمن نے فضائل پہ پردہ ڈالا جاگیر و منصب و دولت کمانے کے لیے اور حسد کی بناء پر۔ لیکن جب زبانوں سے تشدد کے قفل کھلے اور آسمانِ حقیقت سے ظلم کے بادل چھٹے تو دیکھنے والوں نے دیکھا کہ زمین و آسمان کے اندر علی ؑ کے فضائل چھلکتے نظر آئے کہ جس کے سامنے دوسروں کے فضائل ذرہ بے مقدار سے بھی کم دیکھائی دیے ۔اور دشمنی و عناد کا اُڑتا ہوا غبار آپ کے کارہائے نمایاں کو چھپا نہ سکا ۔لیل جبران ایک جگہ لکھتا ہے کہ زمانہ علی کا قدر شناس نہ تھا انسانیت نے اپنی پوری تاریخ میں ایسے انسان کو نہ دیکھا ہو گا پس جو بھی علی ؑ سے محبت کرتا ہے وہ فطرت سے محبت کرتا ہے اور جو اُن سے دشمنی کرتا ہے گویا وہ جہالت میں غرق ہے۔
جارج جرداق لکھتا ہے کہ کسی بھی مورّخ کے لیے چاہے وہ کتنا ہی بڑا زیرک اور دانا کیوں نہ ہو علیؑ جیسی ہستی کی کامل تصویر کی عکاسی نہیں کر سکتا اور پھر اس کے بعد لکھتا ہے کہ اے زمانے تُم کو کیا ہو جاتا اگر تُم اپنی تمام توانائیوں کو جمع کرتے اور ہر زمانے میں ایسی عقل ، زبان و بیاں اور شمشیر کے ساتھ علیؑ جیسے افراد کا تحفہ ہر زمانے کو دیتے۔
آپ ؑ خود فرماتے ہیں کہ دُنیا کے ہر حاکم سے نفرت اس کے ظلم کی وجہ سے کی گئی جب کہ میں وہ حاکم ہوں جِس سے دشمنی اُس کی عدالت کی وجہ سے کی گئی۔
سلام ہو ہمارا مولائے کائنات علی ابنِ ابی طالب ؑ کی عظمت و جلالت پر کہ جن کی شدتِ عدالت اُن کی شہادت کا سبب بنی۔
رہتی دنیا تک یہ سعادت کسی کے حصے میں نہیں آنی کہ جس کی ولادت بیت اللہ میں ہوئی اور شہادت بھی خدا کے گھر میں۔۔۔۔
فرمانِ نبی ﷺ ہے کہ یا علیؑ پچھلی اُمتوں میں بد بخت ترین شخص قیدار تھا جِس نے ناقۂ صالح کے پاؤں کاٹے تھے اور میری اُمت میں بد بخت ترین شخص وہ ہو گا جو تمہاری داڑھی کو تمہارے سر کے خون سے رنگین کرے گا۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ ؑ کے افکار و نظریات سے روشنی لی جائے اور آپ ؑ کی ہدایات و تعلیمات پہ عمل کر کے دنیا اور آخرت کی کامیابی حاصل کی جائے ۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn