تحریر: وسیم عقیل شاہ جلگاؤں انڈیا
برسات اپنے درمیانی سفر میں تھی۔
عنقریب ماہِ جولائی بھی سِمٹا جا رہا تھا۔لیکن سورج اب بھی کسی ظالم حُکمراں کی طرح پورے آسماں پہ قابض تھا۔کہیں کالی گھٹائیں چھا بھی جاتیں تو مغرور ہوائیں اُن کے پیر جمنے نہ دیتیں۔کبھی کبھی ایک دو جھلکیں ضرور دیکھنے کو ملتیں، لیکن اُن سے زمین کی پیاس کیسے بجھتی جو ہر تِشنہ ذی روح کو اپنے کلیجہ سے لگائے ہوئے تھی۔ سوکھے ندی نالے منہ بسورے پڑے تھے۔ دھرتی سے اُکھڑی ہری چادریں اُس کی بدنمائی کو مزید واضح کر رہی تھیں۔ ہر سمت گرمی کی تیز لہریں لٗو کی شکل میں سنسناتی پھرتی تھیں۔ شاخو ں پرچہچہا تے پرندوں کی آوازوں میں آہ و بُکا کا گماں ہوتا تھا۔بے زبانوں نے رحم کی ڈور انسانوں سے باندھ لی تھیں۔ اور انسان اِس سوکھے بھنور میں انفرادی، سماجی اور معاشی سطح پر جکڑے جا رہے تھے۔ہر طرف مچی ہا ہاکار سے نجات کی صرف ایک ہی صورت تھی ،اِس لیے سبھی عاجزانہ نگاہوں سے آسمان میں ٹکٹکی باندھے ہوئے تھے کہ کہیں سے کچھ گھٹائیں رحمتیں لیکر آئیں اور اِس تپتی زمیں کو ٹھنڈا کردیں۔
اُنہیں دِنوں کی وہ ایک تاریک رات تھی ۔۔۔
وہ گیئر پر گیئر بدلتے ہوئے پوری رفتار سے اپنے گھر کی طرف جارہا تھا۔ سڑکیں سُنسان او ر بے نور پڑی تھیں ، اِکّادُکّاا سٹریٹ لائٹس سینہ تانے اندھیروں کے سِرے تلاش کر رہی تھیں۔ آدھی رات کے گھور سنّاٹے میں اُس کے آٹو رکشے کی آواز کسی ہارَر فلم کی موسیقی جیسی تھی۔ نوٹوں اور سِکّوں سے بھری اُس کی بھاری جیب اور زبان پرفِلمی نغمے اُ س کی رفتار کو تیز سے تیز تر کر رہے تھے۔ نا ہموار سڑک اور اُس کے رکشے کی تیز رفتاری سے پیدا ہونے وا لی دھڑ دھڑاتی آوازوں کی بھی اُسے کچھ پرواہ نہ تھی۔وہ تو بس بے اِنتہا خوشی کے عالم میں اُچھلتا ،مچلتا، لہراتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ یقیناًاُس کے لیے یہ جشن کی گھڑی تھی کہ آج پھر اُس کی کمائی روزانہ سے خاصی زیادہ ہو گئی تھی ۔جو اس کی سابقہ جمع پونجی میں قدرے اضافہ تھی اورجس کے ذریعے اب وہ بہت جلد اُجولاسے کیے ہوئے وعدے کو پورا کرسکے گا۔
***
سال بھر پہلے ہی دیپک اور اُجولا شادی کے پوِتر بندھن میں بندھے تھے۔اُجولا معمولی شکل و صورت کی دُلہن مگر دیپک کو کسی اپسراکی طرح بھاتی تھی۔یہ دیپک کا ہی عشق تھا کہ اُس نے اُجولا کے معمولی حُسن، ناز نخروں اور شوخ اداؤں کے لیے اپنے دِل میں محبت کے سارے دروازے کھول رکھے تھے۔وہ اپنی چاہت کسی نہ کسی بہانے نفیس قِسم کے تحائف کی شکل میں اُس پر نچھاور کرتا رہتا تھا۔اُجولا کا من بھی شوہر سے ملنے والی سوغات کا منتظر رہتالیکن اُس کے مزاج میں کبھی ضِد کی کھٹاس نہیں گھُلی تھی۔جس کا سبب اپنے شوہر کی بر موقع خدمات تھیں۔ہاں اگر دیپک سے کہیں کچھ کمی رہ جا تی تو شریمتی اشاروں کناہوں سے تو کبھی معنی خیز خاموشی سے اپنی خواہشوں کا اظہار کرلیتی ۔ یہ ’مانگے ‘زبانی نہ ہوتے ہوئے بھی دیپک بہت جلد سمجھ لیتا اور سعادت مند شوہر کی طرح بلا تامل ان کو پوری کردیتا یا پوری کرنے کے لیے جٹ جاتا ۔
آٹو رِکشہ چلانا اُس کا پیشہ تھا اور اُس کی زندگی کا آئینہ بھی،جس کے عکس میں اُسے اُجو لا کے لیے خریدے ہوئے تحفہ کی قیمت کم اور وقعت زیادہ دِکھائی دیتی تھی۔مگر دُشوار گزارمعاملہ تب پیش آتا جب’’ قیمت وقعت سے کئی زیادہ بڑھ جاتی۔‘‘دراصل دیپک نے اپنی بیوی کو اُس کے جنم دن کے اوسر پر ایک ننھا سا بکسہ بطور تحفہ پیش کیا جس میں ایک جوڑ تھا،’’چاندی کی بالیوں ‘‘کا۔ا نہیں پاکر اُجولا کا چہرہ ایسے کھل اٹھا تھا جیسے مدّھم روشنی بھرے کمرے میں یکلخت بھر پور اُجالا کر دیا گیا ہو۔لیکن چند ہی لمحات میں آئینے کے مقابِل وجود کے اجلے کھلے مُکھڑے پر ارمانوں کی موجوں نے سر اُٹھالیا ، جسے دیپک نے ایک ہی نظر میں تاڑ لیا ۔ اپنی بے تحاشہ محبت میں کمی محسوس کرتے ہوئے بڑی ندامت کے ساتھ اس نے اُن بالیوں کو خود اپنے ہاتھوں سے اُتار ا اورپورے عزم کے ساتھ یہ وچَن دیا کہ’’وہ اب سونے کی با لیوں سے ہی اُجولا کا سنگار کریگا ۔‘‘
تب ہی سے دیپک ان چاندی کی بالیوں کو سونے کی بالیوں میں تبدیل کرنے کی حسرت لیے دن رات رِکشہ دوڑاتا رہتاہے۔جیسے کسی سے اپنی بڑی ہارکا بدلہ لینا چاہتا ہو۔ جب محدود کمائی سے مطلوبہ رقم میسّر نہ آئی تو اُس نے اپنے شفاف رِزق میں جھوٹ ،لوٹ اور فریب کے بد نما رنگ ملا لیے جو اس کی آمدنی پر خاصے پر اثر ثابت ہوئے ۔اِسی روِش میں اُس نے ایک موٹی رقم اکٹھّا کرلی تھی۔
ابھی کچھ دیر پہلے ہی اُس نے ایک مجبور مسافر کو اپنی غرض کا نشانہ بنایا تھا ۔اس مسافر کو فوری طور پر ریلوے اسٹیشن جانا تھا مگر رات کافی ہوچکی تھی جس کے سبب اسے دیپک کے رکشے کے علاوہ وہاں کوئی دوسرا رِکشہ نہ ملا ،مجبوراً سے دیپک کا من چاہا کرایہ ادا کرنا پڑا۔
آج کے لیے خطیربلکہ توقع سے زیادہ روپیے کمانے کے بعد اب وہ مزید محنت نہیں چاہتا تھا، اس لیے ر یلوے اِسٹیشن سے سیدھے گھر کی طرف لپکا ۔اُسے اُجولا کا بھی خیا ل تھا۔
***
دیپک گیئر گیئر بدلتے ہوئے، گنگناتے ہوئے ،اچھلتے مچلتے پوری رفتار سے اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا۔۔۔کہ د فعتاً اُس کی نظر دور سڑک کی دوسری جانب پڑی۔کوئی تھا جو اندھیرے میں تنہا جلتی اِسٹریٹ لائٹ کے قریب کھڑا اُسے اپنی طرف راغب کر رہا تھا۔ اُسے تو راست گھر ہی جانا تھا لیکن’’ جب لکشمی خود چل کر ماتھے پر تِلک لگانے آرہی ہو تو کیا دِن کیا رات ‘‘دیپک نے موقع کو غنیمت جانا اور فوراً قریب پہنچ کر ’ یو ‘ ٹرن لیا۔
’’بولو ماؤ سی کدھر جانا ہے ؟‘‘
’’اِندرا میونسپلٹی دواخانے جانا ہے بھیا ۔‘‘
ایک ادھیڑ عمر کی خاتون نے نہایت لاچاری اور عاجزی سے کہا۔
اُس عورت نے حقیقی لاچاری سے کہا تھا یا عادتاً ،وہ سمجھ نہ پایالیکن اُس کے احوال بیان کر رہے تھے کہ وہ اِنتہائی مصیبت کی ماری تھی ۔ قدرے مضطرب چہرے پر پچکے ہوئے گا ل ،اندر کو دھنسی ہوئی آنکھیں اورپتلے بدن پر جھُولتے معمولی کپڑے۔اُسے دیکھتے ہی لگتا تھا کہ مفلسی اُس کی عمر کھا گئی ۔حا لانکہ وہ چالیس بیالیس سے زیادہ کی نہ تھی۔ ایک اَدھ ننگا بچہ رونی صورت بنا ئے اُس کی د ا ہنی ران سے چمٹا ہوا ،جس کی آنکھوں میں خوف پلکو ں تک بھرا معلوم ہوتا تھا۔قریب ہی ٹوٹے کنٹینرکی دیوار سے ٹیک لگائے غالباً دس گیارہ برس کی ایک بچی بے حال پڑی تھی۔ اُس کا سر دیوار سے لگا ہوا تھا جس کے سبب لائٹ کی روشنی سیدھے اُس کے چہرے پر پڑ رہی تھی ۔وہ انتہائی علیل معلوم ہورہی تھی ۔اُس کی کیفیت میں مدہوشی و غنودگی کے اثرات تھے اور ٹھہر ٹھہر کے کسی درد سے کرا ہتی بھی تھی۔
’’میں اُدھر پہ نئیں جا تا ماؤسی اُدھر اپنا لا ئن نئیں ہے ۔‘‘
دیپک نے اِسکلیٹربڑھاتے ہوئے کہا۔
’’ارے !ایسا نہ کہو بھیّا ، مریج ہے۔ کچھ تو رحم کرو، دیکھو وہ کیسی مر رہی ہے ۔۔۔۔‘‘
خاتون نے رکشے کے ایک حصے کو مضبو طی سے پکڑلیا ۔اور بیمار بچی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کی منتیں کرنے لگی۔
خاتون کی مسلسل منّت سماجت اور دیپک کے داؤ پیچ کا سلسلہ نصف منٹ تک جاری رہااور بالآخر۔۔۔۔
’’ٹھیک ہے مگر اَسّی /۸۰ روپیہ ہو جائے گا ،تو چلتا ہوں۔‘‘
کرایہ سنتے ہی خاتون کی آنکھیں پھٹ پڑیں کیونکہ معمول کے بیس /۲۰ ر وپیے سے کرایے کی یہ رقم بہت زیادہ تھی۔ اِس سے پہلے کہ وہ زبانی احتجاج کرتی بچی کے کراہنے کی آواز نے اُسے خاموشی سے رکشے میں سوار ہونے پر مجبور کر دیا۔
دن بھر کی سلگتی زمین تقریباً ٹھنڈی ہوچکی تھی لیکن نیم گرم ہوا ؤں کے بھپکے اب بھی ماحول کو گرما رہے تھے ۔رکشہ دائیں بائیں مڑتے ہوئے اِندرا میونسپل اسپتال کی طرف رواں دواں تھا۔ دیپک کی ذات میں شوخیاں اب بھی مچل رہی تھیں لیکن اُس کے پسِ پُشت اَشکوں کا سیلاب آن پڑا تھا۔ بیمار بچی نا معلوم درد کے مارے حلق کے کنویں سے عجیب آوازیں نکالتی، وہ با ربا راپنی بچی کھچی قوت سے اپنے کرب کا اظہار کرتی ،لیکن اس کی چیخیں کچھ بلند ہوکر حلق ہی میں معدوم ہوجاتیں۔ پھر تھک کر سسکیاں بھرنے لگتی ۔ خاتون اپنے ممتا بھرے آنچل سے اُس کے آنسو خشک کرتی جاتی ،اُسے صبر کی تلقین کرتی اور بہت جلد اسپتال پہنچنے کا دِلاسہ دیتی۔ اُس کی آنکھیں بھی اشکبار تھیں لیکن ہر بار وہ کسی طرح خود پر ضبط کیے جارہی تھی۔ بغل میں بیٹھے معصوم بچے کی بے چینیاں بھی قابل رحم تھیں۔ کبھی وہ مرتعش نظروں سے اپنے ہمسفروں کو تو کبھی اُچک اُچک کر باہر اندھیروں کو گھور نے لگتا۔ اور کبھی بے آواز مگر ہچکیوں کے ساتھ روپڑتا ۔شریفانہ تمدّن کے یہ تین اِنسان غربت کی ایک ہی مورت تھے ،جن کی زبو ں حالی میٹر لائٹ کی نیم روشنی میں جھِلمِلا رہی تھی۔اور دیپک اُسے سائیڈ گلاس کے مدھّم عکس سے محسوس کر رہا تھا۔
اب اُس کی زبان خاموش ہوچکی تھی، آنکھوں میں ایک قسم کا ٹھہراؤ اور رفتار درمیانہ۔ اُس کا وجو د مکمل ساکت اور کچھ بھاری بھاری سا ہو گیا تھا ۔اپنے اندرون میں چھائی پشیمان خاموشیوں کو توڑنے کے لیے اُس نے الفاظ کا سہا را لیا۔
’’ماؤسی ،بے موسم گرمی چالو ہے ابھی سب چھوڑ پہیلا اپنے بچے لوگ پہ د ھیا ن دینے کا ، کچھ ہوگیا نا تو کون سالا اپنا دھرا ۔۔۔؟باپ کہا ں ہے اِس کا؟؟؟‘‘
خاتون نے بڑی حیرت سے اُس کا منہ دیکھنے کی کوشش کی جس کا رُخ آگے کی طرف تھا۔پھر دبی آواز میں بولی۔
’’نئیں ہے۔۔۔گُجرگئے۔‘‘
دیپک نے ایک جھلک نگاہِ تاسف سے پیچھے کی سمت دیکھا۔
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد دیپک نے پھر بولنا شروع کیا ۔
’’ہو اکیا اس کو۔۔۔۔ ؟اتنی رات کو وہ ڈاکٹر لوگ کیا دیکھیں گے بھلا اِس کو ، فارم والا بھی جھپکی مار رہا ہوگا۔ آج تو بس پرا وِٹ دواخانے ہی سہی ہے ، سب ایکدم پیشل۔۔۔۔ ، طبیعت بگڑے نا تو پراوٹ دواخانے میں ہی جانے کا روپیہ پیسہ پیسہ جاتا ہے جائے پر ادھر نہیں آنا بابا۔ ہوں۔۔۔ یہ سرکاری دواخانے ۔۔۔۔ او ر یہ ۔۔۔ ڈاکٹر۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔ سب بے بھروسے ہے سالے ‘‘
’’سرکاری دواخانے ہی بھلے ہے بھیّا علاج ڈھنگ سے نئیں بھی ہوا تو پیسہ جانے کا غم نئیں ، ڈوبے بھی تو کتنا ؟
دیپک نے اب کی با ر بڑی حیرت سے پیچھے کی سمت دیکھا ۔خاتون نے ناک سڑک کر کچھ توقف کیا اور پھر گویا ہوئی۔
’’ ہماری چال کے ڈاکٹر صاب کی صلاح سے پراوٹ دواخانے بھی لے گئی اسے ،دو مہینے سے دوا چالو تھا مگر علاج دھیلے بھر کا نہیں ۔ بس پیسہ ٹھگ رے میرے سے، دو ہی جیور تھے وہ بھی بیچ آئی اُن کمینو ں کا منہ بھرنے ۔پھر بھی بولتے اور پیسہ لاؤ۔ اب کیا دھرا میرے پاس جو اور جاؤں اُن قصابوں کے یاں ۔ ‘‘
خاتون ایک ہاتھ سے بچی کا سر اپنی چھاتی سے چمٹائے اور دوسرے ہاتھ سے لڑکے کو پکڑے ہوئے برستی آنکھوں سے من کے چھالے پھوڑرہی تھی۔ اور آخر کے ان جملوں پر تو اس کی آواز ہی دب کر رہے گئی کہ ’’ بھیا ہم غریبوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھانے والے یہیچ لوگ اصلی جالم ہے۔دیکھنا یہ بھوت بھگتے گے ۔۔۔!اوپر والا ان کا کبھی بھلا نہیں کریگا۔۔۔۔!
دیپک کی آنکھیں تو سامنے سڑک پر دوڑ رہی تھیں لیکن پورا وجود ایک ہی جگہ ٹھہر کر پورے دھیان سے خاتون کی طرف ہوگیا تھا ۔ یک بارگی اُسے اپنے اندر ایک خلش سی محسوس ہوئی ، سر چکرانے لگا، آنکھوں کے آگے اندھیرا چھاگیا ۔ پھر ہوا کا ایک سرد بگولہ اُس کے پیٹ میں بل کھاتے ہوئے تیرگیا جس کے سبب وہ اندر ہی اندر عجیب کروٹیں بدلنے لگا۔ اسے یوں محسوس ہورہا تھا گو کہ وہ گہراتی تاریکیوں کا مسافر ہے اور روشنی کا کچھ سامان نہیں ۔
اسی اثنا میں رِکشہ انگریزوں کے زمانے کی ایک کشادہ عمارت کے سامنے آکر رُکا۔ رکشے سے اترتے ہی خاتون گنگ زبان بنی فرط حیرت سے یہ سب دیکھتی رہی کہ خود دیپک نے کس طرح بچّی کواپنی گود میں لٹایا اور تیزی سے اسپتال کے صدر دروازے کی طرف دوڑ پڑا۔پھر بھرتی کی کاروائی میں اسپتال کا کمرہ کمرہ بھاگتا رہا اور آخر کار اسپتال کے عملے سے تقریباً لڑ جھگڑ کر علیل بچی کو ڈاکٹرس کے حوالے کر دیا ۔ اس کی دوڑ بھاگ سے کچھ ہی منٹوں میں اسپتال کی سستاتی عمارت متحرک ہو اٹھی تھی ۔
دیپک اپنے بے دم ضمیر میں نئی جان کے آجانے سے نا آشنا تھا،مگر وہ کچھ ہلکا ہلکا سا ہوگیا تھا۔ ۲۰ / منٹ کی جِدو جہد کے بعد وہ واپسی کر رہا تھا کہ اُسے محسوس ہوا دو معصوم سہمی سہمی نگاہیں اُس پر ٹکی ہوئی ہیں۔ وہ پر سکون انداز میں چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا تا ہوا اس کے قریب پہنچا ۔پھر ایک پل رُکا اور جھک کر اپنی جیبو ں کی کچھ ریزگاری سے اُس معصوم بچے کی ننھی مٹھیوں کو بھر دیا ساتھ ہی کچھ نوٹ ا س کی شرٹ کی جیب میں ڈال کر اس کی جیب کو تھپ تھپاتا ہوا بغیر مڑے تیز تیز قدموں سے باہر کی سمت بڑھ گیا۔اس سے پہلے کہ خاتون کا لجلجا وجود اس کی طرف متوجہ ہوتا اس کا رکشہ نیم شب کے سکوت کو جگاتا ہوا اسپتال کی عمارت سے دور ہو تا جا رہا تھا۔
***
ادھر اُجولا کی بے چینیوں کا عالم عروج پہ تھا۔کھڑکی کا پٹ کھولے سڑک پر دیدے گاڑے بیٹھی تھی۔دور سے آتی گاڑیوں کے آنے جانے کی آوازوں سے اُچھل پڑتی۔ کبھی اپنے سیل فون کو کان سے لگاتی اور شِٹ شِٹ کر کے اسے جھٹکے سے بند کر دیتی ،تو کبھی اپنے چھوٹے سے کمرے میں ٹہلنے لگتی ۔ اُس پر یہ ایک ایک پل پہاڑ سا گزر ا۔
وہ ان طویل تڑپاتی فکروں سے اُس وقت آزاد ہوئی جب ایک ہی دستک پر اس نے دروازہ کھول کر دیپک کو اپنے سامنے کھڑا پایا ۔قریب ہی تھا کہ وہ اُس سے والہانہ انداز میں لپٹ جاتی اور یوں دیر لگانے پر درجنوں سوالوں کے تیر اپنے گھونسوں میں سمیٹ کر اس کی کشادہ چھاتی پرداغتی۔مگر وہ ایسا کچھ بھی نہ کرسکی کیونکہ دیپک اپنے چہرے پر کئی پہیلیاں لیے ہوئے تھا اور آنکھوں میں ڈھیروں سوالوں کے ساتھ اُسے ایک ٹک دیکھے جا رہا تھا۔اجولا نے پہلے تو اپنے آپ کو سنبھالا پھر اُس کی منشا جاننے کے لیے آہستہ آہستہ اُس کی آنکھوں میں اترنے لگی۔چند ہی ساعتوں میں دیپک نے کسی شکست خور دہ سپا ہی کی طرح اپنا مجبور ہاتھ اس کی طرف بڑھایاجِس کی ہتھیلی پر ایک چھوٹاسا بکسہ تھا ۔اُجولا مجسمہء حیرت بنی کبھی اسے تو کبھی اس کی ہتھیلی پر رکھے بکسے کو دیکھتی رہی ۔پھر دھڑکتے دل سے بکسہ اپنے ہاتھوں میں لیا اور حیرت و سوال کے ملے جلے انداز سے اُسے کھولا۔اُس میں وہی چاندی کی بالیوں کا جوڑ تھا جس کی معمولی چمک اس کی آنکھوں میں ننھی سوئیوں کے مانند چبھنے لگی ۔ اس کا چہرہ فق پڑ گیا ۔یقیناً اس کے من کے گوشو ں سے پیلے رنگ کی تمناؤں نے صدا ئیں دی تھیں ۔
لیکن پھر ۔۔ ۔۔
اچانک وہ خوشی سے کیے سمجھوتے کے جذبے سے چہک اٹھی۔ اب اس کا چہرہ صاف بتا رہا تھا کہ وہ دیپک کی آنکھوں میں ا بھر آئے تمام ہی سوالوں کے حل تلاش کر چکی ہے۔اس نے ہونٹوں کو ہلکا سا خم دیا، ناک پھلا کر ایک لمبا سانس کھینچا اور آنکھوں کو بھینچتے ہوئے مگر پیار بھرے غصے سے اسے نہارا ۔پھر چاندی کی بالیوں کو کانوں میں آویزاں کیا اور خود کو دیپک کی آنکھوں کے آئینے میں گڑاتے ہوئے اپنے دل فریب انداز میں گویا ہوئی۔
’’کیا میں ’ اِن‘ میں سُندر نہیں لگتی؟؟؟؟‘‘
دیپک کا بوجھل انگ انگ بجلی کی سی سراہیت سے کڑک اٹھا اور بے نور چہرہ مسرتوں کے سیکڑوں جگنوؤں سے جگمگا اٹھا ۔اس نے پوری توجہ سے اجولا کے لجّاتے ہوئے چہرے کو دیکھا ۔یقیناً وہ آج سے پہلے اُسے اتنی سُندر نہیں لگی تھی ۔
رات کے وہ رواں پل گواہ تھے کہ آج نہ توزر و زیور کی خواہش تھی اور نہ ہی حسن کی چاہ ، فقط ’’مان تھا ،سمّان تھا۔‘‘ تبھی کھڑکی سے آتے ٹھنڈی ہوا کے تیزجھونکے نے کمرے کی فضا کو بھینی بھینی خوشبوؤں سے معطر کر دیا۔باہر بارش شروع ہو چکی تھی۔۔۔۔!آسمان ٹوٹ پڑا تھا۔۔۔۔۔!
پھر بادل گرجتے رہے ، بجلیاں کڑکتی رہیں۔ مہینوں کی پیاسی، تڑپتی، سلگتی زمین سیراب ہوتی رہی۔۔۔۔۔۔رات بھر بارش ہوتی رہی ۔۔۔۔۔ہوتی رہی۔۔۔۔۔ رِم جھِم رِم جھِم رِم جھِم رِم جھِم۔۔۔۔۔۔
بشکریہ محترم وحید قمر ، عالمی افسانہ فورم
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn