Qalamkar Website Header Image

یوم تکبیر اور دفاع پاکستان

پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم دن جب ہمارے ازلی دشمن بھارت کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 28 مئی 1998 کو پاکستان نے صوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی کے مقام پر یکے بعد دیگرے پانچ کامیاب ایٹمی دھماکے کر کے خطے میں طاقت کا توازن برابر کر دیا۔ اور وطن عزیز کے درو دیوار نعرہ تکبیر اللہ اکبر کی صداؤں سے گونج اٹھے ۔ اس دن کو یوم تکبیر کا نام دیا گیا۔ یہ دن پاکستانی قوم کے لیے بلاشبہ 14 اگست 1947 کے بعد عظیم ترین دن تھا۔ کیونکہ ان دھماکوں سے چند روز قبل ہی بھارت نے ایٹمی دھماکے کر کے خطے میں اپنی برتری ثابت کر دی تھی۔ پہلے سے ہی پاکستان سے کئی گنا زیادہ عسکری وسائل فوج اور جنگی ہتھار رکھنے والے کمینہ صفت دشمن بھارت نے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کو للکارنا شروع کر دیا تھا۔

اس کا جنگی جنون آخری حدوں کو چھو رہا تھا۔ ہندو بنیئے کی بھڑکیں ناقابل برداشت ہو چکی تھیں ۔ پاکستان کی کمزوری اور بھاری کی برتری پر دنیا بھر کے میڈیا پر تبصرے کیے جا رہے تھے۔ پاکستان قوم اور ملک کے لیے یہ ایک بہت کٹھن مرحلہ تھا گو کہ پاکستان ایٹمی طاقت کا حصول کئی سال قبل کر چکا تھا۔ اور ایٹمی دھماکوں کی پوزیشن میں تھا مگر عالمی دباؤ اور پابندیوں کے پیش نظر ایٹمی دھماکوں سے گریزاں تھا ۔ مگر اب مکار دشمن کی للکار اور دھماکے کے نتیجے میں ایٹمی دھماکوں سے ان کا جواب دینا اس کی مجبوری اور بقاء کا مسئلہ بن چکا تھا ۔ ایسے حالات میں تمام عسکری قیادت ، سائنس دانوں اور ملکی سیاسی قیادت نے سر جوڑ لیئے اور عالمی دباؤ کے باوجود دشمن کو دندان شکن جواب دینے اور اس کی برتری کو خاک میں ملانے کا فیصلہ کرتے ہوئے محض چند دنوں کے اندر ایٹمی دھماکے کر کے نہ صرف دشمن قوتوں کا غرور خاک میں ملا دیا بلکہ ان کو یہ پیغام بھی دیا کہ اب ہم تر نوالہ نہیں بلکہ آہنی چنے ہیں ان ایٹمی دھماکے کرنے کا خمیازہ پاکستان کو اقتصادی پابندیوں کی صورت میں بھگتنا پڑا مگر دشمن پر واضح ہو گیا کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اور اس کا دفاع ناقابل تسخیر ہو چکا ہے ۔

یہ بھی پڑھئے:  اَکڑ تب جچے جب عمل بہتر ہو!

دنیا کا دستور ہے کہ ہمیشہ طاقت ور کو ہی عزت دی جاتی ہے ۔ کچھ عرصہ قبل ایک کتاب میں ایک واقعہ پڑھنے کا اتفاق ہوا جو کچھ یوں ہے کہ "مدرسے کے چند طالب علم فارغ اوقات میں چہل قدمی کے لیے مدرسہ سے کچھ دور کھیتوں میں جاتے ہیں تو انہیں آوارہ کتوں کا ایک غول گھیر لیتا ہے۔ بھونکتے ہوئے ان کا پیچھا کرتا ہے وہ بمشکل جان بچا کر مدرسے تک پہنچ پاتے ہیں ۔ مولانا صاحب ان سے اتنی جلدی مدرسے میں واپسی کا سبب دریافت کرتے ہیں تو طلباء ساراواقعہ بتاتے ہیں ۔ مولان صاحب دوسرے روز ان ہی طلباء کو اپنے ساتھ چلنے کا کہتے ہیں اور ہاتھ میں ایک لمبی لاٹھی اٹھاتے ہیں انہی کھیتوں کا رخ کرتے ہیں جہاں آوارہ کتوں کا غول براجمان ہے ۔

جب مولانا کے قافلے کا گزر ان کتوں کے پاس سے ہوتا ہے تو کتے پر سکون ان کو صرف دیکھنے تک ہی اکتفاء کرتے ہیں اور بھونکنے اور ان کی پیچھے دوڑنے کی ہمت نہیں کرتے ۔ مولانا کا قافلہ جب واپس پلٹتا ہے طلباء حیرت سے سوا ل کرتے ہیں کہ حضرت ہم حیران ہیں کہ آج کتے ہماری طرف دوڑے اور نہ ہی بھونکے یہ آ پ کی برکت ہے ۔

یہ بھی پڑھئے:  نیا پاکستان اور نیا وزیراعظم

مولانا جواب دیتے ہیں یہ میری نہیں ان لمبی لاٹھی کی برکت ہے جو میرے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ہے ۔ کل آپ بغیر لاٹھی کے تھے تو کتوں کو آپ پر بھونکنے کی ہمت ہوئی مگر آج ہمارے ہاتھوں میں لمبی لاٹھی پکڑی دیکھ کر کتے بھونکنے اور ہمارا پیچھا کرنے سے باز رہے ان کو ہمت نہ ہوئی لاٹھی نے انہیں ایسے کرنے سے باز رکھا کتا ہمیشہ اس وقت آپ کی طرف دوڑے گا ، بھونکے گا جب وہ آپ کو کمزور محسوس کرے گا۔ اگر آپ کے پاس لاٹھی کی طاقت ہو گی تو وہ آپ کی طرف رخ نہیں کرے گا”۔ وطن عزیز کے دشمنوں کا مزاج بھی یہی ہے بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ کی طرف سے آئے روز جنگ مسلط کرنے کی دھمکیاں وطیرہ بن چکی تھیں مگر جب ہم نے ایٹمی دھماکے کر کے اپنے آپ کو جوہری طاقت منوالیا دوسرے لفظوں میں لاٹھی کا انتظام کر لیا تو ان کے ارادے خاک میں ملک گئی پاکستان ایک پر امن ملک ہے مگر دفاع کے اسبا ب بھی ضروری ہیں تاکہ کوئی دشمن ہم پر حملے کی جرات نہ کر سکے۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں نے اسے ناقابل تسخیر بنا دیا بلاشبہ یوم تکبیر پاکستانی قوم کے لیے ایک عظیم دن کی حیثیت رکھتا ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس