Qalamkar Website Header Image

قید مہنگائی کا جِن بے قابو

رمضان المبارک جو کہ رحمت و برکت والا ہے، لیکن اس ماہ کے آغاز ہونے سے قبل ہی اشیاء خرد ونوش پر اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس بار بھی رمضان المبارک کے آغاز سے پہلے ہی مہنگائی کے جِن نے پاکستان بھر میں پنجے گاڑنے شروع کردیے ہیں۔ مرغی کے گوشت نے آسمان کی طرف پرواز شروع کردی ہے۔ ناجائز منافع خوروں نے کراچی میں آنے والی گرمی کی لہر اپنے پیچھے مہنگائی کے اثرات چھوڑ گئی،صرف چند روز میں مرغی کے گوشت کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا، رمضان کی آمد کے ساتھ ہی مہنگائی کا جن بے قابو ہو جاتا ہے۔

اگر سبزیوں اور پھلوں کی بات کریں تو ان کو خریدنا بھی کوئی آسان کام نہیں رہا۔ اہلیان پاکستان کو جہاں رمضان کے مبارک مہینے کے آنے کی خوشی ہے۔ وہیں انہیں آنے والے مہنگائی کے طوفان سے بھی ڈر لگ رہا ہے۔ گویا کہ ایک مقدس مہینے کا استقبال ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری سے ہورہا ہے۔ اس موقع پر ضلعی اور صوبائی حکومتوں کا کہیں وجود نظر نہیں آرہا۔ حکومتی عہدیداروں نے تو منافع خوروں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے اور کھل کھیلنے کا پورا موقع دے رہے ہیں۔

ایک مذہبی تہوار پر عوام کو سہولت فراہم کرنے کی بجائے منافع خوری کے ذریعے ماہ رمضان کے روزے رکھنے کو بھی مشکل بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دنیا کے کسی حصے میں تاجروں کا ایسا چلن نہیں ہے جیسا کہ یہاں پر ہے۔ چائے میں چنے کا چھلکا، مرچ میں بھوسہ اور ہلدی میں گاچنی مٹی ڈالنے کا رواج عام ہے۔ہوس ایک ایسی بیماری ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی ہے۔ سرمائے کو دگنا کرنے کی ہوس روپے پر ایک آدھ پیسا کمانے والے تاجر اب اپنی آمدنی دگنی اور چوگنی کرنے کے چکر میں پڑ گئے۔ ایک چھوٹی سی دکان سے بڑے بڑے شاپنگ سنٹر بننے لگے۔ یعنی ہر کوئی اپنے کاروبار کو وسیع کرنے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے۔ عوام کو سستے داموں اشیا فراہم کرنے کی بجائے ہر سال مقدس مقامات کے سفر کے کر کفارہ ادا کرتے نظر آنے لگے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  اتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب - اختر عباس

مہنگی اور غیر خالص خوراک ملنے کی وجہ سے پاکستان میں اکثر لوگ کم خوراکی کا شکار ہو گئے ہیں۔ بچوں کے قد چھوٹے ہوتے جارہے ہیں اور خون کی کمی کی شکایت بھی عام ہے۔ حکومت دعوے تو ملک کو جدید مملکت بنانے کی کرتی ہے۔ مگر ان کو دنیا کے تمام مسلم اور غیر مسلم ممالک کی مثالیں دکھائی نہیں دیتیں جہاں مذہبی تہواروں سے پہلے اشیاء صرف کی قیمتیں انتہائی کم کردی جاتی ہیں۔ تاکہ تمام لوگ خوشیوں میں حصہ لے سکیں۔ مملکت خداداد میں عید کے موقع پر کئی خاندانوں کے سربراہ اس لیے خود کشی کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو اچھا لباس یا خوراک فراہم کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی ترقی کے لئے پل، سڑکیں، ہسپتال اور اسکول بھی ضرور ہیں۔ مگر اس کے ساتھ عوام کی قوت خرید کو بھی بڑھانا ہوگا۔ کیونکہ ہمارے ملک میں اشیاء تو موجود ہیں لیکن عوام میں قوت خرید نہیں کہ وہ ان اشیاء تک رسائی حاصل کریں۔ جس کے لئے ان کے لئے روزگار کے ذرائع پیدا کرنےہونگے ساتھ ہی ساتھ ان اشیاء کی قیمتوں کو بھی لگام دینی ہوگی۔ ورنہ ہر سال غریبوں کے لٗئے رمضان کے روزے رکھنا اور عید منانا مشکل ہی رہے گا۔

یہ بھی پڑھئے:  بھول گئی یہ قوم ایک درویش بزرگ کو ، ہائے الحذر الحذر - الطاف حسین رندھاوا

حالیہ بلاگ پوسٹس