اس وقت حاضر وزیر اعظم کی بجائے میڈیا کی تمام تر توجہ متوقع نگران وزیر اعظم کی طرف مرکوز ہے ۔ چینلز پر اب حاضر وزیر اعظم کی خبر بھی اس طرح پیش کی جاتی ہے، جیسے افطاری میں مہنگے سموسے بیچنے والے کی خبر چلائی جاتی ہے۔ دانشور ، اینکر اور تحقیقی رپرٹرز چُن چُن کر ان تمام انسانوں کی نگرانی کر رہے ہیں جنہیں بیوی کی فرمانبرداری ، بچوں کی تابعداری اور سسرال کی خدمت گزاری میں درک حاصل رہ چکا ہو ۔ ہمارے اپنے خیال میں نگران وزیر اعظم کے لئے موزوں ترین فرد وہی ہو سکتا ہے جو زبان تو رکھتا ہولیکن صرف اس وقت بولے جب بیوی سو چکی ہو اور بچے کان پر ہیڈ فون لگائے مصروف ہوں ۔
مزید احتیا ط کے لئے ایک ریموٹ کنٹرول چپ بھی لگا دی جائے تو نگران وزیر اعظم کی نگرانی کرنا مزید آسان ہو جائے گا ۔ ن لیگ نگران وزیر اعظم میں خاقان عباسی جیسی صلاحتیں ڈھونڈ رہی ہے اور پی پی پی کوئی نیا راجہ پرویز اشرف تلاش کرنے کی کوشش میں ہے جبکہ پی ٹی آئی گھات لگائے نیا وار کرنے کا موقع ڈھونڈ رہی ہے ۔ یہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان حسن اتفاق ہی ہو گا کہ کوئی ایسا سیاستدان مل جائے جو خاقان و راجہ اور زرداری و نواز کے بدلتے زاویوں کی مستطیل قائم رکھ سکے ۔ میرے خیال میں نگران وزیر اعظم ہو گا بھی ایسا کہ جب میاں نواز شریف کی طرف رخ کرے تو خاقان عباسی لگے اور جب زرداری صاحب کی طرف دیکھے تو راجہ پر ویز اشرف کی شباہت نظر آئے۔ہم نے علامہ ماچس سے سوال کیا کہ نگران وزیر اعظم میں کیا ممکنہ خصوصیات ہونا چاہئیں ۔ جواباََ انہوں نے سوال پوچھ لیا ، نگران وزیر اعظم جتوئی کی طرح لوکل چاہئیے یا معین قریشی کی طرح امپورٹڈ ۔ ہم نے عرض کی زرمبادلہ کے ذخائر جیسے لفٹ میں بیٹھ کر نیچے ہی نیچے آ تے جا رہے ہیں ،ایسے میں امپورٹڈ بنیان نہیں افورڈ ہو پا رہا ، ڈالری وزیر اعظم کہاں بھگتیں گے ۔ روپوں والا ہی ٹھیک رہے گا ۔
ایک لمبی سانس لے کر بولے سب سے پہلی خصوصیت تو نگران وزیراعظم میں یہ ہونی چاہئیے کہ وہ زندہ ہو ۔ ہم نے کہا جناب نگران وزیر اعظم منتخب کرنا ہے اس کا جنازہ نہیں پڑھوانا ۔ظاہر ہے کوئی زندہ شخص ہی اس مرتبے تک پہنچ سکے گا کہ مردے قبر اور پولنگ سٹیشن ہی میں اچھے لگتے ہیں ۔ جھلا کر بولے ، پوری بات تو سُن لیا کرو ۔ نگران وزیر اعظم خود تو زندہ ہو لیکن اس کے ضمیر کاڈیتھ سرٹیفیکیٹ جاری ہو چکا ہو ۔ زندہ ضمیر صرف شاعروں ادیبوں اورمصوروں کو زیب دیتا ہے ، سیاستدانوں کو نہیں ۔ دوسری خاصیت یہ کہ اُسے روزانہ آٹھ دس بیانات دینے کی عادت ہو ، لیکن عمل کرنے کا سوچے تک نہیں ۔ جیسے ’’احتساب کا عمل جاری رہے گا ‘‘ تو احتساب والے بیانات جاری رہیں اُسے منطقی انجام تک پہنچانے کی ضرورت نہیں کیونکہ انجام تک پہنچانا خلائی مخلوق کا منشا ء ہے نہ کمائی مخلوق کو اس کا اندیشہ ۔بات اور پیٹ کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے بولے ، اور تیسری خاصیت یہ کہ پتلون میں بیلٹ کس کے باندھتا ہو۔ یہ سُن کر ہمیں شدید حیرانی ہوئی کہ پتلون میں کس کے بیلٹ باندھنے کا نگران وزیر اعظم کی تعنیاتی سے کیا تعلق ؟ نگران وزیر اعظم ہے پتلون اپنی کمر کے حساب سے پہنے گا مولانا فضل الرحمان کی پیٹ کے ناپ کی تو نہیں ۔ ڈرتے ڈرتے دریافت کیا کہ ہمیں تو عادت ہے پتلون میں کس کے بیلٹ باندھنے کی کیوں کہ پتلون اکثر ہماری کمر کی حدود سے دو تین انچ باہر ہی ہوتی ہے کہ لنڈے میں موٹے تازے انگریزوں کی اترن ہی ملتی ہے، پتلے انگریز تو شاید ناپید ہو چکے ۔
لیکن نگران وزیر اعظم کو کیا ضروت پتلون میں بیلٹ کس کے پہننے کی ۔ یہ سُن کر علامہ یک دم خاموش ہو گئے پھر ہماری حماقت وری پر دیر تک کھلکھلاتے رہے ، ابھی تازہ تازہ افطاری سے فارغ ہو ئے تھے ، لہذا پانی کے ٹب کی طرح بھرا ان کا پیٹ ہنسی کی ہر لہر کے ساتھ جھکولے کھاتا ۔ جب کافی پانی ہچکولے کھا کھا کر گردوں سے ہوتا ہوا بلیڈر تک پہنچ گیا ، تو حوائج مخصوصہ سے مجبور ہو کر اٹھے اور دانت منہ کے اندر کر تے ہوئے چلتے چلتے بولے ۔جب عدالت کسی بات کا نوٹس لیتی ہے تو بڑے بڑوں کی پتلون ڈھیلی ہو جاتی ہے ۔اب نگران وزیر اعظم ہر وقت پتلون ہی بچاتے رہیں گے تو نگرانی خاک کریں گے ؟
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn