ہماری گلی کی نکڑ پر ایک نہایت عمر رسیدہ صاحب کا لکڑیوں کا ٹال ہے۔ نام تو ان بزرگ کا کوئی بھلا سا ہے مگر محلے کے سب لوگ انہیں حاجی شرفو کے نام سےہی پکارتے ہیں۔ آج کے جدید دور میں جب گھر گھر میں گیس کی سہولت موجود ہےتو بھلا کون ٹال سے لکڑیاں خرید کر بطور ایندھن استعمال کرتا ہے؟ سو ان کا لکڑیوں کا کاروبار سدا کا مندا ہی جا رہا ہے۔ ہاں موسمِ سرما میں جب وطن عزیز میں گیس کے پائیپوں کا واحد مصرف صاف ہوا کی ترسیل رہ جاتا ہے تو ان دنوں میں ان کے ٹال پر خوب رونق رہا کرتی ہے۔ باقی سال بس موسمِ سرما کے کربناک انتظار میں کٹا کرتا ہے جو اُن کے جاں بہ لب کاروبار کےلیے موسمِ گل کا پیغام لے کر آتا ہے۔آخر سارا سال پیٹ پر پتھر باندھ کر تو گزارہ نہیں کیا جا سکتا سو حاجی شرفو اپنی دکان پر لکڑیوں کےعلاوہ کھلا پیڑول بھی بیچتےہیں۔ بس یوں سمجھیے کہ چتا جلانے کا سار ا سامان حاجی شرفو کی دکان پر دستیاب ہے۔ اگر جیون کے روگ سے مکتی چاہیے ہو تو بلاتکلف حاجی صاحب کی دکان پر تشریف لے جائیے۔ان کی دکان سے کھلا پیڑول زیادہ تر وہ موٹرسائیکل والے ہی خریدتے ہیں، جن کے موٹر سائیکل مسلسل جھٹکے کھاتے ہوئے اچانک ساکت ہو کر پیڑول ختم ہونے کا اعلان کر دیتے ہیں۔ حاجی صاحب ان موٹر سائیکل والوں کی مجبوری کو بھانپ کر اس کا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہیں ۔ اوپن مارکیٹ میں پیڑول کے جو بھی نرخ چل رہے ہوں، شرفو صاحب اُن کا دگنا وصول کرتے ہیں۔ فرض کریں اگر پیڑول کی قیمت 70 روپے فی لیٹر چل رہی ہے تو حاجی صاحب ایک ہاتھ سے فوطے کھجاتے ہوئے، اور دوسرا ہاتھ سفید ریشِ مبارک پر پھیرتے ہوئے، آپ کو پیڑول کی قیمت 140 روپے فی لیٹر بتائیں گے۔ اسے حاجی شرفو کی بیوی کے ان وظیفوں کی تاثیر ہی سمجھیے جو وہ اُن کے کاروبار میں ترقی کے واسطے کرتی رہتی ہیں، کہ روز کم از کم کوئی درجن بھر موٹرسائیکل سواروں کی قسمت حاجی صاحب کے ٹال کے سامنے انھیں داغِ مفارقت دے جاتی ہے۔ ان کے پیڑول میں پٹرول کم ہوتا ہے اور پانی زیادہ۔ یوں کہیے کہ پانی میں بطور تبرک پیٹرول ملا دیتے ہیں۔ خریدنے والا محض پیڑول کی خوشبو سے پانی پر پیڑول کا دھوکہ کھا جاتا ہے۔ حقیقت تب کھلتی ہے جب بائیک کچھ کلومیڑ چل کر "پھٹ پھٹ چوں پھٹ ” کی آوزیں برامد کرتی ہوئی رک جاتی ہے۔ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔
آج جب میں یونیورسٹی سے واپس گھر پہنچا تو اپنی گلی میں داخل ہوتے ہی دیکھا کہ حاجی صاحب بازار سے ماہِ رمضان کے واسطے سودا سلف کی خریداری کر کے لوٹے ہیں۔ مجھے دیکھا تو اپنے ناتواں پھیپھڑوں پر پورا زور ڈالتے ہوئے پکارے ، "میاں سننا، زرا یہ سامان گھر تک پہنچانے میں میری مدد تو کردو۔” یہ بات انہوں نے اس طرح کہی جیسے اس قہر گرمی میں منوں وزنی سامان اُن کے گھر تک ڈھونا ایسا ہی ہے جیسے ٹھنڈی ٹھنڈی راحت افزا پھوار سے لدے بادلوں پر تیرنا۔ لہجے میں وہ بے تکلفی تھی جس بے تکلفی سے فیضؔ صاحب دار ورسن اور مقتل گاہ کا ذکر کرتے ہیں۔ دل میں تو حاجی صاحب کو خود صلواتیں سنائیں۔ اس شدید ترین گرمی میں حاجی صاحب کے گھر تک سودا سلف ڈھونا تو کجا کس کمبخت کا دل چاہتا تھا کہ ایک تنکا تک ایک جگہ سے سرکا کر دوسری جگہ رکھ دے۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ چہرے پر ایک مصنوعی زہر آلود تبسم سجا کر میں سامان ڈھونے کے خاطر حاجی شرفو کی جانب بڑھا۔ جوں ہی حاجی صاحب کے قریب پہنچا اُن کے چہرے پر سجی ان کے اندر کی ساری نفرت دیکھ کر چونک سا گیا۔ مجھے شانے سے پکڑ کر اپنے قریب کرتے ہوئے بولے "سنو بھلا آج کیا غضب ہوا۔” میں نے انہی کے لہجے میں جواب دیا” بھلا آج کیا غضب ہوا؟” جواباََ بڑے پراسرر سے لہجے میں ایسی سرگوشی کی جو آواز کی بلندی کے حساب سے چیخ کی حد سے زرا ہی پرے رہ گئی تھی "ملاوٹ! سب ملاوٹ۔” گو یا آج ملاوٹ کرنے والے دکاندار زیرِ عتاب آنے تھے۔بطور تمہید ملاوٹ کرنے والے دکانداروں کو ایک بلیغ گالی سے نوازا جس میں ان دکاندروں کی ماؤں بہنوں اور سوروں کےدرمیان مبینہ تعقات کی طرف واضح اشارہ تھا۔ بولے” خدا غارت کرے ان ملاوٹ کرنے والوں کو۔ جو کھانے کی چیز خریدی سو ملاوٹ سے بھرپور۔ کالی مرچ کی جگہ رنگ لگی خدا جانے کیا شے بیچ رہیے ہیں۔ سرخ مرچوں میں اینٹوں کا برادہ ملایا ہوا ہے۔ بیسن دال کے بجائے مٹر کے سوکھے دانوں سے تیار کیا جا رہاہے۔ کھانے کا تیل پتہ نہیں کس حرام جانور کی پگھلی ہوئی چربی ہے۔” خیر اسی طرح انھوں نے کئی اشیائے خرد و نوش کے نام گنوائے جن میں ان کے خیال کے مطابق ملاوٹ کی جارہی تھی۔
"ان لوگوں کورمضان کے مقدس مہینے تک کا پاس نہیں۔ نہیں سوچتے خدا جانے خریدنے والا کس مشکل سے چار پیسے کما کر لایا ہوگا۔ ہر وقت اسی فکر میں رہتے ہیں کہ بس کسی نہ کسی طرح حرام کمائی سے اپنا پیٹ بھرلیں۔ مزید ستم دیکھو کہ قیمتوں کو بھی دیا سلائی دکھا رکھی ہے۔ بھیا! اگر اتنا گھٹیا مال ہی بیچنا ہے تو کم از کم کچھ نرخ کی ارازں کر لو۔۔۔”
ان کی یہ فصیح و بلیغ تقریر لمبی چلتی نظر آتی تھی کہ دفعتاََ میری نظر ان کے عقب میں ٹال پر پڑی جہاں ان کا بڑا لڑکا بیٹھا بڑی تندہی سے ان کی ہدایت کے عین مطابق "پانی میں پیڑول” شامل کر رہا تھا۔ میں نے ہاتھ کے اشارے سے ان کی توجہ اس طرف دلائی۔ یہ منظر دیکھ کر تقریر کرتے کرتے اچانک یوں بدکے جیسے بھڑ نے کاٹ لیا ہو۔ کچھ کہنا چاہا مگر مجھے بے طرح مسکراتے دیکھ کر کہتے کہتے رہ گئے۔پھر شاید شرمندگی سے سر جھکا لیا اور حسب عادت اپنی سفید ریش میں الجھ کر رہ گئے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn