Qalamkar Website Header Image

آئیں اپنی بیٹیوں خوش قسمت بنائیں

جب میں چھوٹی تھی مجھے اپنے لڑکی ہونے پہ غصہ تھا۔ مَیں سوچتی کاش میں لڑکا ہوتی، تب تو سمجھ نہیں آتی تھی کہ اس غصے اور خواہش کی وجہ کیا ہے؟ مگر اب زندگی نے سمجھا دیا کہ اس وقت بھی لڑکیوں کی یہی معاشرتی اور معاشی حالت تھی جو آج ہے۔ گھر میں ہر بات پہ بیٹے کو فوقیت اچھی خوراک، اچھی تعلیم، اچھا لباس، اچھا بستر، دادا دادی، نانا نانی کا چہیتا، ماں باپ کا لاڈلا، مستقبل کا سہارا، خوابوں کی تعبیر کی امید۔ اور بیٹی۔۔۔۔ پرایا دھن، بوجھ، ذمہ داری، جہیز کی فکر.

میں تعلیمی شعبے سے منسلک ہوں. ہر طبقہ فکر اور تقریباً ہر تعلیمی اور معاشی معیار کے ماں باپ سے ان کے بچوں سے متعقلہ والدین سے گفتگو کرچکی ہوں۔ سکول کالج پرنسپل، ڈاکٹر، معاشی طور خوشحال، متوسط، غریب، سب کی سوچ بیٹیوں کے بارے میں تقریباً ایک جیسی ہے۔ وہ بیٹے کا تعلیمی مستقبل ایسے پلان کرتے یا کرنا چاہتے ہیں کہ وہ معاشی طور پہ خود مختار ہو ان سے زیادہ اور بہتر کمائے۔ مگر آج تک ایک بھی والدین نہیں ملے، جنہوں نے اپنی بچی سے متعلقہ ایسی بات بھی کی ہو۔ تان یہیں پہ ٹوٹتی ہے کہ آخر ہے تو پرایا دھن… شادی ہی کرنی ہے.

میں اکثر والدین کو سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں کہ جیسے بیٹے کو معاشی طور پہ مستحکم اور خود مختار بنانے کے لیے آپ سوچتے ہیں کہ اچھا کمانے کے قابل ہوجائے، ایسا بیٹی کے لیے بھی پلان کریں۔ وہ مجھے یوں دیکھتے ہیں جیسے کوئی انہونی بات کردی۔ اگر ہم صرف اپنی سوچ کو تھوڑا سا تبدیل کرلیں اور اپنی بچیوں کا تعلیمی مستقبل اس طرح پلان کریں کہ اس کا مقصد صرف اچھے رشتے کا حصول نہیں بلکہ معاشی خود انحصاری ہو یعنی اپنی بیٹی کو اس قابل بنانا کہ وہ اچھا کما سکے اپنے پیروں پہ خود کھڑا ہوسکے تو ہم اپنی بیٹیوں کی قسمت بدل سکتے ہیں۔ لوگ اکثر کہتے ہیں ہم اپنی بیٹیوں کو سب کچھ دے سکتے ہیں، اچھے نصیب نہیں۔ یقین کریں کہ ہم انہیں خوش قسمتی بھی دے سکتے ہیں ان کو اچھی تعلیم اور معاشی خود انحصاری دے کر۔

یہ بھی پڑھئے:  سی پیک کا منصوبہ اور گلگت بلتستان کا مقدمہ - شیر علی انجم

آئیں اپنی سوچ بدلیں. اپنی بیٹیوں کو خوش قسمت بنائیں.اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے. بہت سے دوست اس بات سے متفق ہوں گے اور کچھ نالاں…. اس کے اسباب اور محرکات کا اندازہ چند سوالات کے جواب ڈھونڈیں تو مل جاتا ہے. یہ مزاحمت ایک ایسے اکثریتی ٹولے کی طرف سے ہوتی یے جو ان سماجی معاملات پہ سوال اٹھانے کو کفر قرار دیتا ہے جو ان کے مفادات کو ٹھیس پہنچانے کا سبب بن سکتے ہیں. مگر روایات بدلنے کا وقت آن پہنچا ہے. جب لڑکیوں کی معاشی خود انحصاری کی بات کی جائے… تعلیم کی بات کی جائے . beneficiariesمفاد پرست ٹولہ جس نے عورت کو نام نہاد حقوق، عزت اور چادر چار دیواری کا جھانسہ دے کر اس کا صدیوں سے مستقل اور مسلسل زہنی جسمانی اور نفسیاتی استحصال کیا یے اور کررہا ہے، مختلف مذہبی اور سماجی تاویلیں گھڑنے لگتا ہے…. سماجی خاندانی نظام کی تباہی، عزت و ناموس کا جنازہ، بے حیائی و بدکاری کا فروغ وغیرہ

ایسے گروہ سے اگر چند سوالات کیے جائیں جیسے کہ 1: ہمارے موجودہ سماجی اور خاندانی ڈھانچے کی بنیادی خصوصیات کیا ہیں؟ موجودہ نظام ہماری سابقہ موجودہ اور آئندہ نسلوں کی فلاح اور بہبود کے لئے کتنا موثر رہا.. ہے اور ہوگا؟ 2: کیا بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال صرف عورت کی زمہ داری ہے؟ 3: کیا عورت کی بطور فرد اپنی کوئی شناخت نہیں ؟ 4: عورت کی تعلیمی اور معاشی ترقی کس طرح سماجی اور خاندانی ڈھانچے کے لیے ضرر رساں ہے؟5: موجودہ سماجی اور خاندانی نظام اسی طرح جاری رہنا چاہیے یا اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟ ایسے سوالات کے جوابات جب ڈھونڈنے نکلیں تو بہت سی الجھنیں سلجھتی نظر آتی ہیں اور یہ اکثریتی استحصالی گروہ بے نقاب ہونا شروع ہو جاتا ہے..بس ایسے سوال اٹھانے ضروری ہیں تاکہ معاشرے میں. موجود استحصال کی ہر قسم ہر صورت کا خاتمہ ممکن ہو۔                                                                    پھردل کو مصفّا کرو اس لَوح پہ شاید,                                                                                          مابینِ من و تو نیا پیماں کوئی اترے,                                                                                              اب رسمِ ستمِ حکمتِ خاصانِ زمیں ہے,                                                                                          تائیدِ ستم مصلحتِ مفتئِ دیں ہے,                                                                                                  اب صدیوں کے اقرارِ اطاعت کو بدلنے                                                                                        لازم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی اترے

حالیہ بلاگ پوسٹس