میں بہت تواتر سے خواتین کے بارے میں ایسی تحریریں لکھ رہا ہوں جو اکثر خواتین کو ناگوار بھی گزر سکتی ہیں۔ خصوصاً کم عمر نوجوان لڑکیوں کو۔ مگر نامقبول بات کہنا کبھی کبھی بہت ضروری ہو جاتا ہے۔
پاکستانی خواتین مغرب کے برابری کے نعروں سے متاثر ہوتی ہیں۔ کیوں نہ ہوں، مرد بھی تو مغرب کی آزادیوں اور مساوات کے اصولوں کو للچائی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ نہ مردوں کی حرکات وہ والی ہیں جو مغرب کی آزادیوں اور مساوات کو اپنے ہاں لاگو کروا سکیں اور نہ ہی خواتین نے جانا ہے کہ برابری اور آزادی کیسے حاصل ہوتی ہے۔ نتیجہ میرا جسم میری مرضی اور اپنی روٹی خود پکاؤ جیسی بےمزہ تحریکوں کی شکل میں نکلتا ہے۔ یہ الگ رہنے دیں کہ ایسی تحریکیں بھی پاکستان کی عام خواتین کی نمائندہ تنظیمیں نہیں چلاتیں بلکہ اپر مڈل کلاس کی ایسی "سحر زدہ” نسلیں جن کو میکڈونالڈ کا برگر "کلچر پوائزننگ” کر جاتا ہے۔
قوی خان ہمارے پی ٹی وی کے سنہری دور کے بادشاہ اداکار ہیں۔ ان کے چھوٹے بیٹے مہران قوی ہیں۔ زندگی میں چند ایک ہی ایسے لوگوں سے ملاقات ہوئی جن کی اندرونی خوبصورتی بیرونی چمک سے بھی بڑھ کر تھی۔ مہران قوی ان میں سے ایک ہے۔ سالوں سے اس سے رابطہ نہیں مگر سعودی آرامکو میں چند دن ہم چند دوستوں نے بہت پرلطف دن گذارے۔ مہران قوی میں طبعی شرافت تھی، جوانی کے "ٹائم پاس” کے طور ہمارے لطیفے ذرا بہک جاتے تو فوراً بات کا رخ بدل دیتا۔ خود سے کبھی ہلکے درجے کی بات کرتے میں نے نہیں دیکھا اسے۔ مہرانؔ کینیڈا سے آیا تھا اور کچھ عرصہ بعد واپس کینیڈا ہی چلا گیا۔
ایک دن بات خواتین کی برابری پر ہو رہی تھی کہ مہران قوی جو اکثرخاموشی سے ہماری بحثیں انجوائے کیا کرتا تھا، یکدم گفتگو میں ایسے آیا کہ ہم حیران رہ گئے۔ کہنے لگا کہ مغرب کی آزادی اور برابری ہمارے ہاں کی عورت نہ ہی لے تو اچھا ہے۔ اس پر ظلم ہوگا۔ کینیڈا میں میں جب کام سے واپس اپنے اپارٹمنٹ جاتا تھا تو کام سے واپس آتی تھکی ہاری لڑکیوں کو دیکھ کر ترس آتا تھا۔ ماں باپ فرد کی آزادی پر پہلے ہی گھر بدر کر چکے ہوتے ہیں۔ اب اپنے اپارٹمنٹ کا کرایہ، بلز ادا کرنے اور ویک اینڈ پر ڈیٹ پر جانے کے لیے ڈھنگ کا لباس خریدنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑتا ہے۔ بہت سی لڑکیوں کو باقاعدہ اس کلچر کو کوستے دیکھا کہ جہاں انکو سکون کا ایک کونہ میسر نہیں۔ کوئی خیال کرنے والا، خیال رکھنے والا نہیں۔
مگر مہران ڈئیر! ان کو اپنی زندگی میں آزادی تو ہے نا؟ میں نے دلیل دی۔ اس آزادی کی کوئی قیمت تو دینا ہی پڑتی ہے۔ پاکستان یا سعودی معاشرے میں تو عورت فقط مرد کی باندی بن کر اور اپنا ہر فیصلہ کرنے کا اختیار سرنڈر کر کے دو وقت کی روٹی حاصل کر بھی لیتی ہے تو اس رزق سے موت اچھی۔
ٹھیک کہتے ہو برادر محمود، مگر آزادی کی یہ قیمت بہت زیادہ ہے۔ لڑکیاں مغرب میں اس سے خوش نہیں ہیں۔ مگر اب کلچر اور روائت اتنا دور نکل آئی ہے کہ ان لڑکیوں کو اس کے علاوہ سوچنے کا خیال بھی نہیں آتا۔ مگر وہ اس سے تنگ ہیں۔ ہاں جو اس معاشرے میں زرا اچھی جاب پر ہیں، یا نسبتاً خوشحال ہیں وہ ایسی آزادیوں کو انجوائے کرتی ہیں، مگر کیا ایسا ہی پاکستان میں نہیں ہوتا؟ وہاں بھی تو اپر کلاس کی لڑکیاں زندگی کے سارے حق اپنے نام لکھوا لیتی ہیں، ہے کہ نہیں؟
بحث کا اختتام کس پر ہوا، یاد نہیں مگر یہ تاثر رہ گیا کہ کینیڈا کی لڑکیاں خوش نہیں ہیں مگر اس آزادی سے دستبرداری کو بھی تیار نہیں۔ اس کے کافی سال بعد ایک شام میں انگلینڈ کے شہر ایڈنبرا میں کچھ یونانی لڑکیوں کے ہمراہ بازار میں تھا۔ واپس جانے سے پہلے سارے اسٹوڈنٹ کوئی نہ کوئی سوونئیر لینا چاہتے تھے۔ ہمارے ہمراہ ایک اومانی لڑکا بھی تھا جو اپنی منگیتر کے لیے مہنگے تحائف خرید رہا تھا۔ برانڈز کے کئی شاپرز وہ ہمارے پاس رکھ کر پھر ایک دوکان میں گھس گیا، جبکہ میں، رودوپی اور کترینہ مال کے باہر سنگی بنچ پر سستا رہے تھے۔
رودوپی اور کترینہ اس کے خریدے تحائف کو حسرت سے دیکھ رہی تھیں۔ کیا سارے عرب اپنی بیویوں کے لیے ایسے ہی مہنگے تحفے خریدتے ہیں، رودوپی مجھے ٹہوکا مار کر بولی۔ یہ تو کچھ بھی نہیں، عرب ملکوں میں تو بیوی سارا سال شاپنگ ہی کرتی رہتی ہے۔ خاوند کے کریڈٹ کارڈز اس کے پاس ہوتے ہیں۔ تم لوگوں کی طرح نہیں، بوائے فرینڈ کے ساتھ رہتے ہوئے بھی آدھا کرایہ شئیر کرتی ہو۔ میں نے فلسفہ مشرق و مغرب کا خلاصہ کرتے ہوئے رودوپی کو چڑایا۔
ہاں ں ں ں ، یہ تو ہے ے ے ے ۔ ۔ رودوپی نے کھوئے کھوئے کہا، شائد وہ دن میں کسی عرب شہزادے کا خواب دیکھ رہی تھی، اس لیے میرا طنز بھی اس کو برا نہ لگا۔
ہمیں تو اپنا آپ خود ہی سنبھالنا ہوتا ہے اور خود ہی پالنا ہوتا ہے۔ نوباڈی پیمپر اس۔ بوائے فرینڈ کے ساتھ بھی فنانشل شئیرنگ کرنا پڑتی ہے۔ بلکہ اب تو اکثر لڑکیوں کو بوائے فرینڈ نکمے ہوتے ہیں ، کم حصہ ڈالتے ہیں۔
مخمود! کترینہ نے مجھے لاڈ سے پکارا، کیا تم میرے لیے ایک عرب شہزادہ ڈھونڈ سکتے ہو؟ سچ میں میں اس سے شادی کر لوں گی۔ کترینہ ہماری کلاس کی وہ لڑکی تھی جو چند فری ڈرنکس کے لیے کسی کے ساتھ بھی پوری رات ناچ سکتی تھی۔ ہاں ہاں کیوں نہیں، میرے بہت سے عرب دوست ہیں، کسی سے تمہاری بات چلاتا ہوں، میں نے ہنستے ہوئے کہا۔ بس تمہیں زرا عبایا پہننا ہوگا، اندر بیشک جینز بلاؤز پہنے رکھنا۔ اور ہاں تمہیں شادی کے بعد اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا ہوگی۔
کیا مطلب؟ کترینہ راضی ہوتے ہوتے رک گئی، مرضی کے مطابق؟ اس کا کیا مطلب ہے؟
مطلب صاف ہے بھئی۔ جیسے عرب کلچر ہے اس کے مطابق۔ بیوی شاپنگ پر جاتی ہے مگر شوہر کی اجازت سے۔ کہیں اور بھی جانا ہے تو وہ بھی اس کی اجازت سے۔ اور ہاں یہ جو تم یہاں لور لور گھومتی ہو، یہ وہاں نہیں چلے گا، میں نے مسکراتے ہوئے آفر مکمل کی۔
اوہ تو تمہارا مطلب ہے پرانے زمانے کی لونڈیوں کی طرح؟ نو وے نیور ، اس مرتبہ رودوپی چلائی۔ نہیں چاہیے ہمیں تمہارا عرب دوست، رودوپی نے ہوا میں ہاتھ لہرا کر مجھے دفع کیا۔
میں نے مایوس دکاندار کی طرح کترینہ کی طرف دیکھا، سوچ لو، میرے کچھ عرب دوست تیل کے کنوؤں کے مالک ہیں (یہ جھوٹ تھا، امید ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے) ایسا موقع زندگی میں بار بار نہیں آتا۔ ڈیل آر نو ڈیل؟ میں نے ہاتھ کی ہتھیلی آگے کو پھیلا دی۔ مجھے پورا یقین تھا کہ لالچی کترینہ تو راضی ہو ہی جائے گی۔ مگر میری حیرت نے کترینہ کو بھی نفی میں سر ہلاتے دیکھا۔ نا نا نا ، میں اس کی غلام لونڈی نہیں بنوں گی۔ عرب شہزادے کو مار کر میں ساری دولت یونان لے جاؤں گی مگر اس کی باندی بن کر نہیں رہوں گی۔ کترینہ نے اپنا فیصلہ سنا دیا جس میں عرب شہزادے کی دولت کی حسرت ہنوز باقی تھی۔
تھوڑی دیر بعد اومانی لڑکا حسن مال سے نکل آیا اور ہم واپس ہوٹل کو پیدل ہی چل پڑے ۔ رودوپی اور کترینہ ہم سے ذرا فاصلے پر آگے آگے چل رہی تھیں اور میں عجیب حیرت سے ان کی سستی جینز بلاؤز اور کاندھے سے لٹکے بیگ دیکھ رہا تھا۔ وہ الہڑ انداز میں ایک دوسرے پر گرتی پڑتی، قہقہے بکھیرتی چلتی جا رہی تھیں۔ ان کی اس آزادی کی قیمت ایک عرب شہزادے کی پوری دولت تھی۔
تب مجھے سمجھ میں آیا کہ مغرب میں آزاد اور برابر عورت کیسی ہوتی ہے۔ ایسی عورت جو مرد پر اتنا ہی حق جتاتی ہے جتنا حق وہ مرد کو اپنے اوپر دیتی ہے۔ ایسی عورت جو مرد کے پیسے میں سے اتنا ہی شیئر لیتی ہے جتنا شئیر وہ اپنے پیسے اپنی کمائی میں سے اس میں ڈالتی ہے۔ وہ مرد کے ساتھ برابری کی بنیاد پر رشتہ بنانا چاہتی ہے، جس میں اس کی آزادی مرد کی آزادی کے ہم پلہ ہو۔ اس کے لیے وہ مغرب میں ایک نکمے آوارہ لڑکے سے تعلق بنا لیتی ہے، مگر تیل کے کنوؤں کے مالک کو درخوراعتنا نہیں سمجھتی۔
ہمارے ہاں جو عورتیں معاشرے میں برابری کا حق مانگتی ہیں، وہ اپنے عورت ہونے کی حیثیت میں مشرقی تہذیب کی بہت سی مراعات کو چھوڑنے کا تصور بھی نہیں رکھتیں۔ انہیں مشرق کا خیال بھی چاہیے اور مغرب جیسی آزادی بھی۔ ایسا نہیں ہوتا۔ ہر آزادی کی ایک قیمت ہوتی ہے، جو بہرحال چکانا ہوتی ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn