اپنے سیاسی زعما کے بیانات، تبصروں اور دعوؤں پر غور کرتا ہوں تو حضرت علی ؑ کا بلیغ اور فصیح قول بے دریغ یاد آنے لگ جاتا ہے ۔آپ نے فرمایا "بول تاکہ پہچانا جائے” ایک اور مقام پر آپ کا ارشاد ہے کہ "انسان اپنی زبا ن کے پیچھے چھپا ہوتا ہے ” ان اقوال کی روشنی میں اپنے سیاسی زعما کے طرز کلام اور سطح بیان پر ایک ذرا سا غور اُن کے شناخت اور پہچان کے لئے کافی محسو س ہوتا ہے ۔
لیکن مسئلہ یہ نہیں کہ ہماری سیاست میں زبان کا استعمال اخلاقیات کی نچلی سطح سے بھی نیچے ہے ۔مسئلہ درحقیقت بذات خود ہماری اخلاقیات کا ہے ۔اخلاقیات کی بنیاد افراد کے باہمی ربط و ضبط کے انداز اور معیار پر استوار ہوتی ہے ۔انسانی سماجی ، سیاسی اور معاشی رشتے کڑی در کڑی عمومی اخلاقیات کو ترتیب دیتے چلے جاتے ہیں ۔اگر ان رشتوں کی بنیاد ظالمانہ یا غیر عادلانہ ہو تو مزاحمتی اخلاقیات سماج میں رواج پاتی ہے ۔برصغیر کا اصل مسئلہ بدیسیوں کے ہاتھوں لشکر کشی کے ذریعے مقامی آبادی اور جغرافیے پر بادشاہتوں کامسلسل راج ہے ۔اس تسلسل کے نتیجے میں مقامی سماج ہمہ وقتی احساس غلامی میں مبتلا رہا ۔اس پر ہندو ذات پات کا نظام تھا جواکثریتی آبادی کو انسانیت کی سطح سے کہیں بہت نیچے رکھنے پر مصر رہا ۔یہ وہ دو ظلم تھے کہ جنہوں نے کم سے کم سماج کے لاشعور میں مزاحمتی اخلاقیات کی بنا ڈالی ۔
یہ ممکن نہیں کہ زندہ انسان کسی بھی حال میں اور کسی بھی وجہ سے غلامی کو دل سے قبول کر لے ۔کسی ظلم یا زیادتی کے خلاف آواز بلند نہ کرنا کبھی بھی اس بات کا ثبوت نہیں ہو سکتا کہ ظلم اور زیادتی کے شکار نے اپنے ساتھ روا سلوک کو عدل و انصاف سمجھ لیا ہے ۔انسانی سطح سے گرائی ہوئی مخلوق مزاحمت کرے یا نہ کرے مزاحمت سوچنے سے بار نہیں رہ سکتی ۔اور یہ سوچ اُس کو وجودی سطح پر نہ سہی ذہنی سطح پر ایک مسلسل غصے اور نفرت کا اسیر ضرور رکھتی ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ ذہنی سطح پر موجود اس غصے اور نفرت کو جب بھی اور جہاں بھی کسی نے شعور اور فکر کی انگیخت دی انسان نے اپنے سماج کی نئی ساخت کے لئے جاں سے گذرجانے سے بھی گریز نہیں کیا ۔
بر صغیر کے سماجی اور معاشی حالات حقیقت میں انقلاب طلب تھے لیکن المیہ یہ ہے کہ یہاں تاریخ کے ہر دور میں انقلاب پر بند باندھے گئے اور اب یہی کام جاری ہے ۔سماج میں موجودہ نظام کے خلاف ہی نہیں بلکہ اس نظام کے کرتوں دھرتوں کے خلاف شدید نفرت اور غصہ پایا جاتا ہے ۔المیہ وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں اس نظام کے کرتا دھرتا ریاستی قوت مقتدرہ کو اس نفرت و غصہ کو دبانے کے لئے بے دریغ استعمال کرتے ہیں ۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عام آدمی کے غصے اور نفرت کے نشانوں میں ریاست بھی شامل ہو جاتی ہے ۔اور ریاست اور فرد کا تعلق ظالم اور مظلوم کا رہ جاتا ہے ۔مغرب نے سرمایہ دارانہ ظلم کے باوجود سماجی فلاح و بہبود کے پروگراموں کے ذریعے فرد اور ریاست کا تعلق بہتر سطح پر قائم رکھا ہوا ہے لیکن اُس کے باوجود فرد اور ریاست کا تعلق حقیقی اپنایئت کی بنیادوں پر استوار نہیں ہو سکا ۔
یہ جو جبر یا ضرورت کے نیچے دبا ہوا غصہ اور نفرت ہے ہماری روزمرہ زندگی میں اس کا بولتا مظاہرہ ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے ۔باپ کی تلخ نوائی سے سلطان راہی کی بھڑکوں پر پٹتی تالیاں سب اسی کا اظہار ہے ۔جہاں کہیں زیر نگیں اور کسی مقتدر کے در پر دستک دینا پڑتی ہے اُسے تلخ نوائی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔دفتروں کے بابو ہوں یا کاروباروں کے منشی اپنے اپنے دائرہ کار میں چھوٹی چھوٹی شاہیاں قائم کئے بیٹھے ہیں جہاں رعایا کو مہربانی اور عطا تو میسر آسکتی ہے لیکن عدل اور انصاف کا ملنا ہر گز ممکن نہیں ۔جب اختیار و اقتدار کی انتہائی نچلی سطح پر صورتحال یہ ہوتو بالائی سطحوں پر احوال کا اندازہ خود کیا جاسکتا ہے ۔
عدل، انصاف اور حسن انتظام کا فقدان مزاحمتی اخلاقیات کو روز بڑہاوا دیتا ہے ۔عام آدمی اپنے مسائل کے حل سے زیادہ شنوائی کو ترسا ہوا ہے ۔نمائندہ جمہوریت میں بھی اُس کی شنوائی ممکن نہیں ہوتی کہ رائے دہندگان اور ایوانوں میں موجود نمائندوں میں زمین آسمان کا فرق ایک عمومی حقیقت ہے ۔مجھ ایسا کوئی عام آدمی بھی اگر ان ایوانوں میں کسی نہ کسی طرح پہنچ جاتا ہے تو اُسے پروٹوکول ، سیکورٹی جیسے لوازمات میں الجھا دیا جاتا ہے یا آئندہ انتخابات میں ٹکٹ اور فتح کے حصول جیسی جنگ میں مبتلا کر دیا جاتا ہے ۔نوکری، طلاق، مقدمہ ، پلاٹ غرض ایک طویل فہرست ہے اُن ہوس کاریوں کی جن کے جال میں ہم سب الجھا دیئے گئے ہیں تاکہ اس ظالمانہ نظام سے جڑے رہیں اور بغاوت اور انقلاب کا رستہ رکا رہے ۔
سو دبی ہوئی نفرت اور سمجھوتوں کی نذر غصہ ہماری روزمرہ بات چیت کا حصہ بن جاتا ہے ۔اور ہم ہر واقعے کو اسی نفرت اور غصے کے تناظر میں دیکھتے ہیں اور اُس پر تبصرہ کرتے ہیں ۔غصے اور نفرت کی زبان کیا کبھی شائستہ اور شستہ ہو سکتی ہے ؟چونکہ نفرت اور غصہ مقبول عام جذبات ہیں لہذا جلسوں جلوسوں میں شعلہ نوائیاں داد و تحسین کی مستحق قرار پاتی ہیں ۔جو مقرر تقریر میں جتنا بھی اشتعال آمیز مصالحہ ڈالے ، طنز و تشنیع کا نمک مرچ لگائے اُتنا ہی اُس کی تقریر سیاسی محاورے میں اُٹھتی ہے ۔جن کو تلخ نوائی کے لئے کوئی اور موزوں ہدف نہیں ملتا اُن کے لئے بہو بیٹیاں آسان ترین ہدف ہوتی ہیں اور یوں بھی ہمارے ہاں بہو بیٹیاں روزمرہ گفتگو میں بھی بے دریغ گھسیٹی جاتی ہیں۔
مزاج طبیعت سے شاعر،پیشے سے وکیل اور فکرو عمل سے سیاسی کارکن ہیں۔انہوں نے شکستہ جھونپڑوں سے زندان کی کوٹھڑیوں تک ،دلدل کی ماری گلیوں سے اقتدار محل کی راہداریوں تک زندگی کے سارے چہرے دیکھے ہیں ۔وہ جو لکھتے ہیں سنائی اور دکھائی دیتا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn