ایک ادھیڑ عمر شخص نے اچانک تمباکو نوشی شروع کر دی، لوگوں کو حیرت ہوئی کے جس نے ساری عمر سگریٹ، پان کو ہاتھ نہ لگایا اچانک سے ادھیڑ عمر میں تمباکو نوشی کیوں شروع کی؟ خیر جب بابا جی سے پوچھا گیا تو کہنے لگے” میرا عزیز دوست حال ہی میں جہانِ فانی سے کوچ کر گیا، مرتے دم مجھے وصیت کر گیا کہ میں تو زندگی میں کچھ نہ کر سکا، لیکن تم اپنی باقی ماندہ زندگی میں میرے نام پر کچھ ایسا ضرور کرنا جس سے لوگ متاثر ہوں،بس میں نے اس کی وصیت کو پورا کرنے کے لئے میں نے اس کے نام پہ تمباکو نوشی شروع کر دی، عام طور پر سگریٹ نہیں پیتا بس جہاں چار بندے بیٹھے دیکھوں ان کے درمیان جا کر سگریٹ سلگا لیتا ہوں، اور ان کو سگریٹ کے دھویں سے متاثر کرتا ہوں، "
ویسے تو پاکستان کے طول و عرض میں ایسے خیراتی فلاحی ادارے بھی ہیں جن کے زیرِ سایہ ہسپتال ،کلینک اور ڈسپنسریاں وغیرہ بہت بہترین اور قابلِ تحسین کام کر رہے ہیں اور عام عوام کو فائدہ پہنچا رہے ہیں، وہیں بہت سارے ایسے فری فلاحی ہسپتال، کلینک، ڈسپنسریاں بھی ہیں جو کسی نے اپنے کسی مرحوم کی وصیت یا ایصال ثواب کے لئے ان کے نام پر شروع تو کیں، لیکن ان میں عدم توجہی کے باعث یا پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ،ناکافی فنڈز کے باعث، یا پھر پیسے ہوتے ہوئے بھی خرچ نہیں کرنا چاہتے۔ ان میں سے کسی بھی وجہ کی بدولت نہایت ناقص، سستی اور غیر معیاری ادویات دی جاتی ہیں، تھوڑی تنخواہوں پر نا اہل عملہ رکھا جاتا ہے، اور اکثر جگہوں پر False Practice بھی کی جاتی ہے۔
ایسے ادارے بھی عام عوام کو بالکل اُسی طرح متاثر کر رہے ہیں جیسے اوپر بتائی گئی کہانی میں بابا جی سگریٹ کے دھویں سے لوگوں کو متاثر کر رہے ہیں، کچھ لوگ تو ایسے مفت ہسپتال اور ڈسپنسریاں اپنا ٹیکس کسی حد تک معاف کروانے کے لئے کھولتے ہیں ،کچھ کا مقصد اپنے کالےدھن کو سفید کرنا، کچھ ان اداروں کے نام پر غیر ملکی فلاحی تنظیموں سے فارن ایڈ کے نام پہ اچھے خاصے پیسے لیتے ہیں،کچھ کا مقصد اپنے علاقے سے چندہ اکھٹا کرنا ہوتا ہے۔ ویسے تو سیاسی مفادات کا حصول ، علاقے میں اپنی تشہیر ، خود کو اہم اور معتبر ثابت کرنے کی لگن اور اپنی اجارہ داری ،رعب اور واہ واہ کی خاطر بھی ایسے ادارے کھولے جاتے ہیں، لیکن ان پر خلوصِ نیت سے توجہ نہیں دی جاتی۔
اس صورت حال میں ان لوگوں سے زیادہ قصور وار وہ سب سیاسی جماعتیں اور فوجی آمر ہیں جو صاحبِ اقتدار رہے لیکن صحت کے شعبے میں کوئی خاطر خواہ کام نہ کیا، 20 کروڑ سے زائد کی آبادی کے ملک میں مکمل سہولیات سے لیس 5 برن یونٹ بھی نہ ہوں گے۔ پورے پنجاب کا دل کا مریض لاہور کے پنجاب کارڈیالوجی ہسپتال میں آتا ہے ، باقی صوبے میں اگر کہیں پنجاب کارڈیالوجی ہسپتال بنایا بھی گیا تو اس کو سیاسی عناد کے باعث چلایا نہیں گیا ، وزیرآباد کے پنجاب کارڈیالوجی کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ پاکستان میں ڈاکٹر اور مریض کا تناسب ایسا کہ پاکستان میڈیکل اور ڈینٹل کونسل کے دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ایک رجسٹرد ڈاکٹر کے حصے میں 1200 مریض آتے ہیں،جو کہ انتہائی تشویشناک ہے۔جو لوگ پاکستان کے دیہاتی علاقوں اور شہری علاقوں میں غریب علاقوں کے صورت حال سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان علاقوں میں زیادہ تر لوگ یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ فلاں کلینک یا ڈسپنسری پر باقاعدہ ڈاکٹر نہیں بلکہ عطائی یا ڈسپنسر ہی ڈاکٹر کے فرائض سر انجام دے رہا ہے ،پھر بھی اسی سے دوا لیتے ہیں کیونکہ اس کی فیس انتہائی کم اور دوا سستی مل جاتی ہے ، وہ لوگ کسی ڈاکٹر کی فیس برداشت نہیں کر سکتے۔ عطائی ڈاکٹروں کے پاس جانا ان کی مجبوری ہے۔
حال ہی میں چیف جسٹس سپریم کورٹ نے نوٹس لیا اور تمام ڈسپنسر اور عطائی ڈاکٹروں کے کلینک سیل کرنے اور ان کو گرفتار کرنے کے احکامات جاری کئے۔بہت اچھا اقدام تھا ،لیکن یہاں ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ ان ڈسپنسروں اور عطائیوں کو بند کرنے سے ان علاقوں میں جو صحت کے متعلق سہولیات کا جو ایک بہت بڑا خلا ابھر کر سامنے آیا ہے جس کی وجہ سے غریب عوام دردر بھٹک رہی ہے ، اس خلا کو پر کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے گئے ہیں ؟دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ پاکستان میں ڈسپنسر کا ڈپلومہ کر کے ہزاروں پروفیشنل بے روزگاری کی زندگی گذار رہے ہیں ، اپنے گھر کا خرچہ پانی چلانے کے لئے وہ لوگ پرائیویٹ پریکٹس شروع کر دیتے ہیں ۔پہلے قانون کی رو سے ان کو پرائیویٹ پریکٹس کی اجازت تھی لیکن انہیں صرف ابتدائی طبی امداد اور نزلہ زکام کھانسی جیسی معمولی موسمیاتی بیماریوں کی حد تک ہی علاج کی اجازت تھی ، اب ان لوگوں کے کلینک بند کئے گئے ان کو گرفتار کیا گیا ، لیکن آیا کہ ان کے روزگار کا بھی کوئی بندوبست کیا حکومت نے ؟ اتنے سارے پروفیشنلز کیا کریں ؟ کہاں جائیں ؟
کیا جب تک کہ کچھ ڈسپنسر خود کو کسی بڑے سرکاری ہسپتال کے آگے احتجاجی طور پر جلا نہ لیں یا حالات سے تنگ آ کر اپنے اسٹیتھو اسکوپ سے پھانسیاں نہ لے لیں تب تک شاید چیف جسٹس صاحب کی ان حالات کی طرف توجہ مبذول نہ ہو،دیہی علاقوں اور قصبوں میں تو بنیادی میڈیکل سہولیات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پنجاب BHU اور RHC تو وقفے وقفے سے موجود ہیں لیکن ان کی حالت قابلِ ترس ہے۔ اور اگر DHQ کی بات کریں تو ایک DHQ سے دوسرے DHQ تک کا کم سے کم فاصلہ 3 گھنٹے کی مسافت کا ملے گا ،کہیں ہو جہاں کی سڑکیں بہتر ہیں وہاں 2 گھنٹے کے فاصلے پہ ہو، اب اگر کسی کا مریض انتہائی ایمرجنسی کی حالت میں ہو تو وہ 2 سے 3 گھنٹے سفر کر کے DHQ پہنچیں گے ،اور اگر DHQ میں بھی ایسی سہولیات میسر نہ ہوں جس سے کہ مریض کی جان بچائی جا سکے تو پھر عمومی طور پر مریض کو لاہور یا اسلام آباد بھیج دیا جاتا ہے ، یا سرائیکی علاقوں کے لوگ پہلے ملتان اور پھر لاہور کا رخ کرتے ہیں۔ ان DHQ ہسپتالوں میں سے اکثر کی سہولیات لاہور کے کسی درمیانے درجے کہ پرائیویٹ ہسپتال سے بھی کم ہوں گی۔ سرکاری ہسپتالوں میں اکثر ہسپتالوں کے لوکل غیر معیاری میڈیسن کمپنیوں سے ٹھیکے ہیں ، ان کی دوائی ہسپتالوں میں لائی جاتی ہے ،جس میں سے ہسپتال کے اربابِ اختیار کو کمیشن ملتی ہے۔
سرکاری ہسپتالوں میں صرف سستے ٹیسٹ ہی ہسپتال کی لیبارٹری سے ہوتے ہیں ،مہنگے ٹیسٹوں کے لئے ہسپتال کے ارد گرد موجود کسی پرائیویٹ لیب میں بھیجا جاتا ہے، ایسی لیبارٹریوں کے اکثر مالکان یا تو کوئی بڑے بزنس مین ہیں یا مشہور سیاستدان ہیں ،جو کبھی نہیں چاہیں گے کہ وہ مہنگے ٹیسٹ سرکاری ہسپتال میں عوام کے لئے مفت کئے جائیں ۔اکثر پروفیسر ڈاکٹر حضرات مریض کی معاشی حالت کا جائزہ لگا کر اس کو اپنے پرائیویٹ کلینک میں علاج کا مشورہ دیتے ہیں اور عذر یہ بتایا جاتا ہے کہ سرکاری ہسپتال میں آپ کے مریض کی نگہداشت ٹھیک نہیں ہوگی، سوال یہ ہے کہ تم اُس ڈیپارٹمنٹ کے سینیر ڈاکٹر ہو، پروفیسر ہو ،تم کیوں اس ڈیپارٹمنٹ کی حالت بہتر نہیں کرواتے ؟ کیا یہ تمہاری ذمے داری نہیں ؟ لیکن ہاں ایسے میں تمہیں اپنے پرائیویٹ کلینک پر پیسے کمانے کا موقع نہیں مل پائے گا۔ ابھی میں False Practice ،اور کیسے کیسے مریض سے پیسے بنائے جاتے ہیں ،اس کی تفصیلات میں نہیں جاؤں گا اس کے لئے تو ایک علیحدہ مکمل مضمون کی ضرورت ہے۔ میں نے کوئی نئی باتیں نہیں کی، ان معاملات پر بہت سے لوگوں نے بات کی، ٹی وی پروگرام کئے ہوں گے ، کالم لکھے ہوں گے، لیکن حالات جوں کہ توں رہے ہیں ،صحت اور تعلیم دو ایسے شعبے ہیں جو ہر صاحبِ اقتدار کی اولین ترجیح ہونے چاہیے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn