سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد ملک کے دانشوروں کی طرف سے انتہا پسندی کے خاتمہ کیلئے بہت سے ٹوٹکے متعارف کروائے گئے ایک معروف کالم نگارکی رائے کے مطابق ملک میں چائے خانے بنانے کی تجویز دی گئی تاکہ لوگ وہاں بیٹھیں گے گپیں ہانکے گے اس عمل سے خوش رہیں گے تو ملک میں انتہا پسندی ختم ہوگی اور سانحہ پشاور جیسے واقعات رونما نہیں ہونگے انتہا پسندی کے خاتمہ کانام پر گزشتہ سال کوئٹہ میں ماہ رمضان کے نام پر کرکٹ ٹورنامنٹ منعقد ہوا جس کی افتتاحی تقریب میں ماہ صیام کے احترام کو خوب آڑے ہاتھوں لیا گیا اور قومی ترانوں کی بجائے بے پردہ خواتین نے گانے گاکر ماہ رمضان کرکٹ ٹورنامنٹ کی افتتاحی تقریب کا خوب افتتاح کیا ۔میری طرح سے آپ بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے آخر کیا وجوہات ہیں کہ ماہ رمضان جیسے مقدس مہینہ میں بھی اسلامی ثقافت کے برعکس پروگرمات ترتیب دئے جاتے ہیں چینلز پر ماہ مقدس کے پروگرامز میں علما کرام کی بجائے شعبدہ باز یا فنکاروں کو متعارف کروایا جاتا ہے آپ اسے یہودی سازش یا اسلام فوبیا قرار دیں تو ایسا ہرگز نہیں ہے لیکن ایسی حرکات اسلا می ثقافت کے منافی ضرور ہیں ایک نجی چینل کے پروگرام کے ایک پروڈیوسر سے اس سوال کا جواب دریافت کیا تو انکا کہنا تھا کہ ٹی وی کے سامنے بیٹھا شخص 50 سے زائد چینلز میں اس چینل کی طرف ہی متوجہ ہوگا جس میں ایکٹنگ فنکاری اور پر کشش چیزیں ہوگی ایسی حرکات کی امید علما کرام سے نہیں فنکاروں سے کی جا سکتی ہے ان کی اداؤں سے چینلز کی ریٹنگ بڑھتی ہے اور چینلزانوسٹ کی گئی رقم دوگنا ہوجا تی ہے کیونکہ چینل کا مالک ریٹنگ چاہتا ہے اس کو اس چیز سے غرض نہیں کہ اداکار اسلام کی غلط تصویر پیش کر رہے ہیں یا نہیں عوام کو انٹرٹینمنٹ کا عادی بنا کر اب اسی پر لگا دیا جائے اور مال کمایا جائے چینلز کی ریٹنگ کے چکر میں عوام کو حقیقی معلومات اور ان کی ضرورت کے مطابق پروگرامات سے محروم کیا جارہا ہے ایک معروف صحافی بیان کرتے ہیں کہ ایک شام ٹاک شو میں سیاسی موضوع کو زیر بحث لایا گیا جبکہ اسی روز باقی چینلز پر اسی موضوع کو زیر بحث لارہے تھے معروف سیاسی شخصیات و تجزیہ نگار مہمان شخصیات کی وجہ سے اس چینل کی ریٹنگ میں قدرے اضافہ ہوا جبکہ باقی چینلز کوکم ریٹنگ کی وجہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تاہم پروڈیوسر نے یہ فیصلہ کیا کہ کل ہم ہجڑوں کی زندگی پر ٹالک شو کریں گے تاکہ ہماری کم ہوتی ریٹنگ میں اضافہ ہوجائے ماہ رمضان میں اس بابرکت ماہ کے فضائل و برکات بیان کرنے کی بجائے شعبدہ بازی و نیلام گھرکی ثقافت کو متعارف کرونے کے چکر میں اسلام کی حقیقی ثقافت کو فراموش کر دیا گیا ہے رقت آمیز مناظر پیش کرنے کیلئے معذور ،لاچار اور یتمیوں کو چینلز کی زینت بنایا جارہا ہے تاکہ ریٹنگ میں اضافہ کیا جاسکے ۔
اسلام کے نام پر ایک الگ ریاست کے خواہاں تحریک آزادی کے رہنماؤں نے اس لئے ہر گز اس ملک کے قیام کیلئے جدوجہدنہیں کی تھی کہ انتہا پسندی کے خاتمہ کیلئے اسلام کی مثالی ثقافت کو فراموش کرکے لوگوں کی خوشنودی اور دنیاوی فوائد حاصل کئے جائیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ماہ رمضان کی حقیقی ثقافت کو میڈیاو تمام ذرائع ابلاغ کی مددسے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں فروغ دیا جائے تاکہ اسلام کے حقیقی چہرہ کو روشن خیالی کے نام پر مسخ نہ کیا جاسکے اور ماہ صیام کے احترام کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جاسکے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn