آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہناہے کہ پاکستان سرد جنگ کے دور سے نکلنا چاہتا ہے ۔ہم کسی کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتے بلکہ خطے میں تعاون کے فریم ورک پر عمل پیرا ہیں دورہ روس کے دوران جنرل باجوہ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان تبصرے کی ایک صورت تو یہ ہو سکتی ہے کہ دادو تحسین کے ڈونگرے برساتے آسمان سرپر اٹھالیا جائے اور دوسری یہ کہ صاف سیدھے لفظوں میں یہ عرض کیا جائے کہ حضور محض بیانات دینے سے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی اپنی پالیسیاں اور ترجیحات کی بناء پر پاکستان کو سرد جنگ کے مسلط دور سے نکلنے کیلئے عشرے لگیں گے ،وجہ یہی ہے کہ پالیسیاں اور حکمت عملی جس نظر ثانی کی متقاضی ہیں ان سے ہمارے پالیسی سازوں کو کوئی دلچسپی نہیں ۔
دو ٹوک انداز میں یہ عرض کر دینا زیادہ مناسب ہو گا کہ فوج کو بطور ادارہ خارجہ پالیسی کے معاملات کی دیکھ بھال اور ڈے ٹو ڈے احکامات جاری کرنے کے عمل سے پیچھے ہٹنا ہوگا ۔پالیسیاں بناناپارلیمان کا کام ہے اور ریاست کے تمام اداروں کا فرض یہ ہے کہ وہ پارلیمان میں وضع کی جانے والی پالیسیوں پر عمل کریں ،ہمارے ہاں باوآدم نرالہ ہے کیوں ہے اس پر لمبی چوڑی بحث کی ضرورت نہیں ،افسوس یہ ہے کہ جب کبھی بھی اداروں کو اپنے آئینی کردار تک محدود ہونے کا مشورہ سامنے آتا ہے سستی حب الوطنی کا شکار ایک ہجوم نظریہ پاکستان اور حب الوطنی کی دو دھاری تلوار صونتے گردنیں مارنے کے لئے دوڑتا ہے اس ہجوم کا پالن ہار کون ہے اور کیوں اس کی کئی نسلوں سے پرورش کی جارہی ہے ۔عسکری قیادت کو نہ صرف اس پر ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہئے بلکہ دہلی کے لال قلعہ پر جھنڈا لہرانے کی بڑھکیں مارنے اور افغانستان کو پانچواں صوبہ بنانے کی تسبیح کرنے والوں کو بھی شٹ اپ کال دینا ہوگی ۔
سرد جنگ کے دور سے نکلنے کی واحد صورت یہی ہے کہ آپ اپنی عادتوں پر غور کیجئے ۔داخلی اور خارجی پالیسیوں کے حوالے سے مہارت کے مظاہروں کی بجائے یہ جنکا کام ہے انہیں کرنے دیں ،کیا ہم امید کریں کہ عسکری قیادت ماضی کے تجربوں سے پیدا ہوئی بدحالی پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کے بعد مستقبل کے حوالے سے اپنے جارحانہ رویوں پر نظر ثانی کرے گی تاکہ ملک میں ایسا نظام تشکیل پا سکے.
جو جیو اور جینے دو کے اصولوں کی روشنی میں جغرافیائی حدود کے اندر کے لوگوں اور پڑوس کی مملکتوں سے معاملات کر سکے ۔عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جب تک آزاد و غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی وضع نہیں کی جاتی اور پرائے پھڈوں میں ٹانگ اڑانے کی بیماری کا علاج نہیں کروایا جاتا اس وقت تک زبانی جمع خرچ جتنا مرضی ہو حقیقی تبدیلی ممکن نہیں حقیقی تبدیلی کے لئے لازم یہ ہے کے عوام کا حق حاکمیت بحال ہو ۔داخلی و خارجی محازوں پر تجربوں کے شوق کو ترک کر دیا جائے
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn