Qalamkar Website Header Image

کار مرداں روشنی و گرمی است

کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ گزشتہ نو دس ہزار سالہ تاریخ انسانی میں بلا تفریق رنگ و نسل، تہذیب کا سب سے اہم ارتقائی موڑ کون سا ہے؟ مذہبی روایات کی رو سے انسان روز اول ہی سے زبان پر دسترس رکھتا تھا تاہم غیر مذہبی یا سائنسی تحقیق کے مطابق زبان بھی صدیوں کے ارتقاء کے بعد وجود میں آئی۔ البتہ اس امر پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ لکھنے کی صلاحیت انسان کو پیدائش کے ساتھ ہی ودیعت نہیں ہوئی تھی بلکہ انسان نے رفتہ رفتہ لکھنا سیکھا اور یہی تہذیب انسانی کا سب سے بڑا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ لکھنے سے قبل انسان کے الفاظ غیر محفوظ تھے لیکن ہر وہ لفظ جو لکھا گیا اس نے تاریخ میں اپنی اہمیت کے مطابق جگہ پائی اور اپنے زمانے کا علم آنے والی نسلوں کو منتقل کیا۔

ماضی قریب میں انسان کی بڑی ایجادات جنہوں نے تاریخ انسانی کارخ متعین کیا ان میں چھاپہ خانہ یا پرنٹنگ پریس وہ ایجاد ہے جس نے علم کے پھیلاؤ کو نئے معنی دیے اور حقیقتاً اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے صنعتی انقلاب کی بنیاد رکھی۔صنعتی انقلاب جب اپنی حدوں کو پہنچا تو تہذیب ایک نئے انقلاب کی چوکھٹ پر کھڑی تھی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی،بلا مبالغہ یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ہی ہے جس نے معلومات کے جہاں کو وسعت آشنا کیا وگرنہ ہمیں وہ وقت بھی یاد ہے جب امریکا اور برطانیہ کے روزناموں کا ایک ہفتہ پرانا بنڈل بذریعہ ہوائی ڈاک ہمارے دفتروں میں موصول ہوتا تھا جب کہ اب ادھر الفاظ لکھے جاتے ہیں اور ادھر ہماری اسکرین پر ابھر آتے ہیں۔ اسی انفارمیشن ٹیکنالوجی نے روایتی صحافت یعنی اخبارات اور رسائل و جرائد کی اجارہ داری ختم کی اور لکھاری و قاری کے درمیان فاصلے سمیٹ کر رکھ دئیے۔

گزشتہ دو دہائیوں کے دوران جہاں انٹرنیٹ نے دیگر بے شمار کارہائے نمایاں سرانجام دیے وہیں اس نے سوشل میڈیا کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ بلاگنگ سائٹس کو بھی جنم دیا ۔ اگرچہ بلاگنگ سائٹس اور بلاگز انٹرنیٹ کی دنیا میں وجود بھی پاتے ہیں اور وجود سے عدم میں کھو بھی جاتے ہیں تاہم ایک محتاط اندازے کے مطابق 2017 میں انٹرنیٹ پر بلاگز کی تعداد کم و بیش 180 ملین یعنی اٹھارہ کروڑ رہی جبکہ پہلا بلاگ لکھے جانے یعنی 1994 سے 2017 تک کم از کم ایک ارب بلاگز انٹرنیٹ پر ظہور پذیر ہوئے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری چھوٹی دنیا کس قدر تیزی سے سکڑ رہی ہے اور انسانوں کے درمیان فاصلے کس تیزی کے ساتھ سمٹ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  شیعہ نسل کشی پر آئی جی خیبر پختونخوا کا گمراہ کن بیان

پاکستان میں بلاگنگ سائٹس کا آغاز بڑے میڈیا اداروں نے کیا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ عام آدمی نے بھی اپنی آواز دوسروں تک پہنچانے کے لیے اس میدان میں قدم رکھا اور دیکھتے ہی دیکھتے، اس میدان میں بڑے میڈیا ٹائیکونز کی اجارہ داری ختم کر کے رکھ دی۔ گزشتہ دو تین برسوں کے دوران پاکستان میں ایسی چند ویب سائٹس نے کامیابی کی منازل طے کیں جن کے پس پشت کوئی بڑا ادارہ نہیں بلکہ بڑے قد کے چھوٹے لوگ تھے جنہوں نے قلم کے ساتھ اپنے رشتے سے عوام الناس کے اذہان تک علم و آگاہی کی روشنی پہنچانے کا فریضہ انجام دیا اور حق و صداقت کے علم کو سربلند رکھنے کی بھرپور سعی کی۔ انہی میں سے ایک "قلم کار” بھی ہے۔

چند روز قبل مرشد کامل جناب حیدر جاوید سید کا فون ملا کہ "قلم کار” کی دوسری سالگرہ آرہی ہے اور اس پر چند الفاظ آپ کی جانب قرض ہیں۔ عرض کیا کہ حضور خاکسار کو حکم عدولی کی تاب نہیں، گو لکھنے سے اب اکتا چکا ہوں تاہم تعمیل ارشاد ہوگی۔ دو روز تک سوچتا رہا کہ کیا لکھوں اور اگلے دو روز تک سوچتا رہا کہ کیسے لکھوں؟ صحافت سے وابستہ دوست جانتے ہیں کہ ایسے مواقع پر بغیر تنخواہ یا مالی مفاد کے لکھنے کے دو تین طریقے مستعمل ہیں جیسا کہ توصیفی تحریر، تنقیدی تحریر، ڈنگ ٹپاؤ تحریر وغیرہ۔

توصیفی تحریر اس تحریر کو کہتے ہیں جو ایک شخص اس مقصد سے لکھتا ہے کہ وقت آنے پر اس کے لیے بھی ایسی ہی جوابی تحریر لکھی جائے گی۔ اس میں زمین و آسمان کے قلابے ملا کر یہ باور کرایا جاتا ہے کہ جیسی اور جو خوبیاں اس کے ممدوح میں پائی جاتی ہیں، ایسی کسی اور میں نہیں۔ جواباً ممدوح بھی یہی لکھتا ہے کہ اس کے مدح سرا سے زیادہ صادق اس وقت روئے زمین پر نہیں۔ گویا تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں زمین جائیداد کی الاٹمنٹ کا فارمولا ہو گیا کہ ایک شخص اگر یہ دعوی کرتا کہ نصف ہندوستان اس کی ملکیت تھا اور اس دعوے کے دو گواہ پیش کرتا تو حکومت پاکستان اس کا دعویٰ قبول کرتی۔ جواباً اگر شخص مذکور یہ گواہی دیتاکہ اس کے دو گواہ بقیہ نصف ہندوستان کے مالک تھے تو حکومت اسے بھی قبول کرنے کی پابند تھی۔

دوسری قسم ہے تنقیدی تحریر ۔۔اس تحریر میں لکھاری کسی کے ساتھ دیرینہ مخاصمت اور کینہ پروری کا اظہار کرتا ہے۔ یہ تحریر عموماً یوسفی صاحب کے الفاظ میں ملاعین و طواغیت کے لیے لکھی جاتی ہے اور مقصد صرف یہی ہوتا ہے کہ پڑھنے والے پڑھ کر عبرت حاصل کریں اور لکھاری کے ساتھ دشمنی سے باز آجاویں۔اس تحریر میں ہر روشن کو تاریک اور ہر خوبی کو خامی ثابت کرنے کا باریک کام نہایت باریک بینی سے کیا جاتا ہے تاہم ہر چند سطور کے بعد یہ بھی واضح کیا جاتا ہے کہ اس تحریر کو بامقصد تنقید سمجھا جائے اور ذاتی مخاصمت پر محمول نہ کیا جائے۔

یہ بھی پڑھئے:  مذہبی منافرت کی تازہ لہر کس کا برین چائلڈ ہے؟

تحریر کی تیسری قسم ڈنگ ٹپاؤ تحریر کہلاتی ہے۔ (پنجابی نہ سمجھنے والوں کے لیے عرض ہے کہ ڈنگ وقت کو کہتے ہیں اور ٹپاؤ کا مطلب ہےگزارنا یعنی وقت کی نزاکت کو کسی طور گزار لینا) ایسی تحریر کا بہترین فارمولا ہے "کٹ، پیسٹ” یعنی اسی طرح کے حالات میں لکھی گئی اپنی یا کسی اور کی دو چار تحاریر میں سے جملے ہی نہیں، پورے کے پورے پیراگراف اٹھا کر وقت، مقام اور نام کی تبدیلی کے ساتھ نئی تحریر میں یوں جڑ دئیے جائیں جیسے ملکہ وکٹوریہ کے تاج میں ہندوستان سے لوٹا ہوا کوہ نور ہیرا زبردستی جڑ دیا گیا تھا۔ ایسی تحریر کی حقیقت صرف وہی جانتے ہیں جو خود اس کام میں مہارت تامہ رکھتے ہیں لیکن کبھی منہ نہیں کھولتے مبادا ان کی اپنی تحاریر کا پول کھل جائے۔ چنانچہ ایسی تحریریں اکثر و بیشتر نہ صرف کامیاب رہتی ہیں بلکہ داد بھی پاتی ہیں۔

جب یہ سطور ٹائپ کرنے بیٹھا تو یہ تینوں ماڈل سامنے تھے لیکن دل نے منافقت کی اجازت نہ دی سو جو کچھ بن پڑا، وہ لکھ دیا (تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے) اور لکھتا کیوں نا۔۔ مرشد کی بے پایاں عنایات اور عزیزم قمر عباس اعوان کی محبت کا قرض چکانا واجب تھا ۔۔۔ اگرچہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔

"قلمکار” کی دوسری سالگرہ پر نہ صرف اس کی ادارتی ٹیم بلکہ تمام قلم کاروں کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد ۔۔ بے مثال ترقی کی ان گنت دعاؤں کے ساتھ۔

حالیہ بلاگ پوسٹس