بچپن میں سائیکل چلانی سیکھی تو کم اور زیادہ رفتار میں سواری پر قابو رکھنا اولین ہدف تھا۔ اس سے اگلا مرحلہ ہینڈل چھوڑ کر سائیکل چلانا اور اسی حالت میں موڑ کاٹنے میں مہارت جاصل کرنا ٹھہرا۔ ان تمام تجربات میں سب سے اہم بات یہ سمجھ آئی کہ تیز رفتار میں موڑ دائیں یا بائیں وزن ڈال کر کاٹا جاتا ہے لیکن متناسب رفتار ہو تو غیر متوازن ہوئے بغیر سفر جاری رکھا جا سکتا ہے۔ اس سے اگلا جو تجربہ ہوا وہ تھا پاکستان کا عوامی کھیل یعنی "سائیڈ” کرنا کرانا۔ جب پہلی بار کسی نے سائیڈ دی تو اپنے زور بازو پہ بھروسہ کرتے ہوئے رفتار مزید بڑھا کر اس سے سائیکل ٹکرا دی۔ نتیجے میں اگلے کا تو کچھ نہیں بگڑا لیکن سائیکل کا ٹیڑھا ہینڈل اور گھٹنے سے شگافتہ پتلون کا پائنچہ زندگی کا سب سے قیمتی سبق دے گیا۔
پاکستان میں اردو بلاگنگ کا آغاز ہوا تو مرکزی دھارے کے اشاعتی اداروں کی پسند و ناپسند سے تنگ آئے افراد کو ایک نیا راستہ نظر آیا۔ گذشتہ چند برس اس حوالے سے اہم رہے جب متعدد اردو بلاگنگ اور میگزین ویب سائٹس نے کام شروع کیا۔ اس موقع پر تیزرفتاری کے شوقین دائیں جھکے تو کچھ بائیں اور چند ایک تو راستے سے وقتی موافقت کے لئے کبھی دائیں کبھی بائیں جھکتے بس پنڈولم بن کر رہ گئے۔ اس تمام کشاکش میں متناسب رفتار سے چلتا ایک ادارہ قلم کار ہے جو منزلوں پہ منزلیں مارتا چلا جا رہا ہے اور اس پہ پھبتیاں کسنے والے شاہراہ کے دائیں جانب پڑے زخم سہلا رہے ہیں تو کچھ بائیں طرف کچے میں اترے کھڑے ہیں اور سائیڈ کرانے کی ناکام پروپیگنڈا کوشش کرنے والے پنڈولم آج بھی تلاشِ راہ میں سرگرداں ہیں۔ اس امتیاز کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قلمکار فرد واحد کا نام ہے نہ کبھی منتظمین نے سوشل میڈیا پر ذاتی و گروہی اختلافی ابحاث میں اسے ملوث کیا۔
قلمکار کی دوسری سالگرہ پہ ہمیں ہم رکاب ہوئے بھی پہلا سال مکمل ہوا۔ سب کی طرح پہلا تعارف تو قمر عباس صاحب ہی تھے جن سے بےتکلفی عشروں کی سی منازل طے کر چکی لیکن جس قدر محبت اور رہنمائی مرشدی حیدر جاوید سید صاحب نے عطا کی وہ بیان کرنا میرے ذخیرہ الفاظ سے ممکن نہیں۔ لکھنے لکھانے کا سلسلہ تو اسکول میگزین سے جاری تھا لیکن مجھ ایسے نوآموز کو اپنے قلم پر جتنا ادبی اعتماد دو بڑی بہنوں فرح رضوی اور ام رباب نے دیا وہ بےمثال ہے۔ آج بھی جملوں کی ساخت، برجستگی اور اضافت میں فرح آپی ہی مشعل راہ ہیں اور املاء تو استانی جی یعنی ام رباب آپی کے بغیر نامکمل ہے۔ اس کے علاوہ جس شخص کے اسلوب اور انداز تحریر سے میں باقاعدہ حسد محسوس کرتا ہوں وہ ہیں برادرم نور درویش۔ اردو میں لکھنے کی بات تراکیب کے بغیر ممکن نہیں اور اس کے لئے ہر طالب علم کو عامر حسینی بھائی کی تحاریر پڑھنا ازحد ضروری ہیں۔ ان کہنہ مشق ادباء کے علاوہ نوجوانوں میں قبائلی علاقہ جات پر شاہسوار حسین اور تعلیم و تعلم پر بلال بھٹی کی گرفت دیدنی ہے تو زہرا تنویر کے قلم کی باریک کاٹ اور وقاص اعوان کا استقلال بھی قابل تقلید ہے۔
قلمکار پر بحیثیت چیف ایڈیٹر حیدر جاوید سید صاحب نے ایران کے سیاسی نظام پر لکھی میری تحاریر کی جس انداز میں حوصلہ افزائی کی اور اعتماد دیا وہ آج کل کے جزوقتی خودساختہ صحافیوں کے بس کی بات نہیں۔ اس کے علاوہ ڈیرہ اسماعیل خان پر لکھی گئی ان کی تحاریر کلیجہ نوچ لینے والی ہیں جن میں دم توڑتی روایتی زمینی تحقیقاتی صحافت کے بھی کئی اسباق پنہاں ہیں۔ میری دعا ہے شاہ جی کی رہنمائی اور قمر عباس کے جذبہ استقلال کے ساتھ شاہراہ علم و ادب پر قلمکار کسی سنسنی یا اشتہا انگیزی کے بنا ایسے ہی اپنا سفر جاری و ساری رکھے کیونکہ ریٹنگ کی اندھی دوڑ میں پروپیگنڈا کا پریشر ہارن بجانے والوں کے لئے ہمارا ایک ہی پیغام ہے، پاس کر یا برداشت کر۔
مصلوب واسطی انجینئرنگ کے شعبہ سے وابستہ ہیں، بحیثیت بلاگر معاشرتی ناہمواریوں اور رویوں کے ناقد ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn