Qalamkar Website Header Image

سالگرہ مبارک قلم کار

قلم کار کی دوسری سالگرہ آرہی ہے۔ پپو کہتا تھا جب پچھلے سال کو گرہ لگ جائے تو یار لوگ اسے "سال گرہ” کہہ کر کیک کاٹنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ مقصد مفتا ہی ہوتا ہے۔ میں اکثر مفتا اور مفتی کا فرق سمجھ نہیں پاتا اور اگر کسی شخص کو غلط اردو بولنے کی عادت ہے کہیں وہ مفتا کو مفتی کہہ دے تواردو کے ساتھ ساتھ بہت سی شخصیات کے ساتھ بھی زیادتی ہو جائے گی۔ قلم کار کی سب سے پسندیدہ بات یہاں درویشوں کا بسیرا ہے۔ یہ نام بھی جان بوجھ کر ایسا رکھا گیا ہے۔ یعنی بقول پپو یہاں جتنے قلم چلانے والے ہیں ان کے پاس قلم تو ہوگا مگر کار نہیں ہوگی۔ اسے لیے انہیں” قلم کارین” کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن یہاں موجود درویش لوگ بس لوگوں کو جگانے کے مشن پر لگے ہوئے ہیں۔

کوئی بھی موضوع ہو، یا وقت موزوں ہو۔ قلم کارین قلم کو چلانے سے باز نہیں آتے۔ اکثر ان کے قلم وہ نشتر چھوڑ جاتے ہیں جو محبوبہ کی جدائی کے نشتر سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ مجھے قلم کار اسی لئے پسند ہے کیوں کہ یہاں متنوع مضامین پڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ سیاست کی بازی الٹی ہو یا کسی سیاست دان کے گھر کے باہر کسی کو الٹی ہوئی ہو۔ سیاست میں جمہوریت گھسنے کی کوشش کر رہی ہو یا ایک کمبل میں نہ آنے پر سیاست کہیں اور گھسنے کی کوشش کر رہی ہو۔ بہرحال ان سب موضوعات کا احاطہ کرنا آج کے قلم کاروں کا فرض اولین ہے۔ لیکن بنیادی فرق جو نظر آتا ہے وہ حقائق کی ترسیل کا ہے۔ کچھ لکھاری قومی ڈاک خانے کی طرح حقائق کی ترسیل کرتے ہیں جو کبھی پہنچ ہی نہیں پاتے ۔یہ اسی ویب سائٹ کا کمال ہے کہ اسے میں نے یک موضوع اور یک شخصی نہیں ہوتے دیکھا۔

یہ بھی پڑھئے:  نوجوان نسل کو یہ بھی سکھائیں

ہمارے یہاں اکثر لکھاری اس بیوہ کمیٹی والی خالہ کی طرح ہوتےہیں جو بہو کی بیماری کی خبر کو ایسا چٹ پٹا بنا کر پیش کرتے ہیں کہ کئی لوگ بہو کے گھر لڈو لے آتےہیں۔ اسی طرح اس دور کو میں "میڈیا کریسی” کا دور کہتا ہوں۔ جہاں میڈیا ایک طرف صرف چند نمونوں کے بطخوں کی خبروں کو مستند سمجھتے ہوئے کالم کے کالم لکھ ڈالتا ہے۔ انٹرنیشنل موضوعات پر ہماری دسترس اتنی ہے جتنی بہو کی گھر کے معاملات میں۔ ہم ہمہ وقت انٹرنیشنل فوبیا کا شکار رہتے ہیں ۔ قلم کار کو میں اس لیے متوازن کہتا ہوں کیوں کہ یہاں انٹرنیشنل خبروں کو لوکل لیول پر چٹ پٹے مصالحوں میں مکس کرکے پیش نہیں کیا جاتا۔جہاں صرف مخصوص مقاصد کوسامنے رکھ کر کالم نہیں لکھے جاتے۔

موجودہ دور میں لبرلز اور دائیں بازو کی جنگ ہر سو دیکھنےمیں نظر آتی ہے۔ ایسے لگتا ہے روس اور امریکہ میدان کارزار میں کھڑے ہوں۔ جیسے ساس اور بہو کمر کس کے اپنے اپنے دفاعی مورچوں میں بیٹھے ہوں۔ ایسے میں کچھ لوگ یک طرفہ ہو جاتے ہیں اور ہر دوسری طرف کو لسٹ سے باہر نکال دیتے ہیں۔ دونوں گروپس کے لکھاری اور پلیٹ فارمز بھی صرف متفق علیہ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے تنقیدی تحاریر کو جگہ نہیں دیتے جب کہ قلم کار پر میں نے دائیں اور بائیں بازو دونوں کو لکھتے دیکھا ہے اور ان کے مضامین شائع ہوتے دیکھا ہے۔اسے میں ویب سائیٹ کی خوب صورت روایت کہوں گا۔

یہ بھی پڑھئے:  قلم کار کا جنم دن

میری قلم کار کے لیے بہت سی دعائیں ہیں۔ امید ہے یہ سال بہ سال بہتر سے بہتری کی جانب گامزن ہو اور اس کے لکھاری اسی طرح اس کے لیے لکھتے رہیں۔ کیوں کہ ہم سب کا مقصد ایک ہی ہے "شعور کی ترسیل”۔ اللہ ہمیں اس مقصد میں کامیاب کرے۔ آمین قلم کار کے تمام لکھاریوں ، ایڈمنز اور سینیرز کے لیے بہت سی نیک دعائیں۔

حالیہ بلاگ پوسٹس