Qalamkar Website Header Image

حق و باطل کی کشمکش

خدائے واحد نے ہر قوم کو ہر نسل کو اس کے مطابق نعمتوں سے نوازا ہے چونکہ انسان اشرف المخلوقات ہے اس لیے اسے دنیا کی ہر نعمت دی۔ جہاں c کو نفس دیا وہیں اسے خواہشات کے مخالف لڑنے کے لیے عقل کی نعمت سے نوازا ۔جہاں اسے عقل اور خواہشات دیں وہیں دل کی پختگی اور صبر و قناعت کی نعمت بھی دی ۔اس نعمت کے صحیح استعمال کے لیے اس نے اپنے عظیم بندوں کو علم سکھا کر ہمارے درمیان بھیجا تاکہ صحیح وقت پر اصل حقیقت کو جان کر ہم اس کی نعمتوں کا استعمال کر سکیں ۔

جہان میں خدائے بزرگ و برتر کے عظیم بندوں نے جنم لیا وہیں ہم میں اس رب کے مخالف کھڑے ہونے والے اشخاص کی پیدائش ہوئی ۔جہاں انسانوں میں انبیاء ، صحابی، ولی اور امام جلوہ افروز ہوئے ۔ وہیں فرعون ، کفار، منافقین جیسے افراد بھی جنم لے کر اترے۔ ہر دور میں حق و باطل کی کشمکش چلتی رہی ہے۔ آدمؑ کو جہاں ابلیس نے بہکایا وہیں ابن آدم کو اس کے انسان نماں پیرو کاروں نے نشانا بنایا ۔ ہر عظیم المرتبت کے آگے ہم نے مخالف کھڑا پایا ۔ ہابیل کے آگے قابیل تو ابراہیمؑ کے مقابل نمرود کو دیکھا ، موسیؑ کے مخالف فرعون کی فرعونیت تو کہیں عیسی ؑ کے مخالف یہود رہے۔ حضرت محمد ﷺ کے سامنے جہل،لہب،عتبہ و شیبہ اور کفار کی کفریت ، علیؑ کے پیٹھ پیچھے وار کیا گیا تو امام حسینؑ کو خطوط لکھ کے بلوایا گیا .لیکن ہر بار صرف حق کا بول بالا ہوا۔

اور وہ وقت شاہد ہے کہ فتح مکہ کے وقت آپﷺ بتوں کو گراتے جاتے تھے اورفرماتے جاتے تھے (حق آگیا باطل مٹ گیا بے شک باطل مٹنے والا ہی ہے) قرآن پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے کہ !(عالم اور جاہل برابر نہیں ہے)۔ اسی طرح حق اور باطل ایک دوسرے کے متضاد ہیں دورِ جدید میں بھی باطل کے ثورماوٗں کو حق کی آواز کو دباتے ہوئے دیکھا گیا ہے ۔ جو اپنی دولت و طاقت کے بل بوتے پر بر سرِ پیکار آتے رہے ہیں لیکن ان کی حکومت عارضی رہی ہے۔ باطل شبِ تاریک کی طرح ہوتا ہے لیکن جب حق غالب آجاتا ہے تو باطل کا قلع قمع ہو جاتا ہے کیونکہ حق صبحِ طلوعِ شمس کی طرح نمودار ہوتا ہے۔باطل ہر بار ذلیل و خوار ہوا ہے کبھی دستِ خلیلؑ پر، کبھی دستِ کلیم ؑ پر، کبھی دستِ مسیح اور کبھی آخر زماںﷺ پر ، کبھی تیغِ حیدری سے قلم ہوا تو کبھی حسین ؑ کے بہتر جانثاروں سے ٹکرایا۔ اور ہر بار تختِ غرور سے گر کر زمین کی دھول چاٹنے پر مجبور ہوا۔

یہ بھی پڑھئے:  یتیم۔۔۔قرآن اور ہمارا طرزِ عمل

دورِ حاضر میں بھی باطل موجود ہے کیونکہ حق ہمیشہ کے لئے ہے اور باطل حق کے آگے سر اٹھاتا رہا ہے۔آج بھی حق و باطل کی پہچان اتنی ہی مشکل ہے جتنا دور قدیم میں تھی۔ باطل حق کا لبادہ اوڑھے دھوکہ دینے کو تیار ہے ۔اگر ہمیں دونوں کو پہچاننا ہے تو علم کی شمع کو لے کر ظلمت کے اندھیرے میں جانا پڑے گا جہاں باطل بے نقاب ہوگا ۔ نو جوان نسل کے کندھوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ حق کو خود بھی پہچانیں اور اپنی حیات پشتی نسلوں کو بھی اس کی شناخت کروائیں ۔آج ہمارے معاشرے میں باطل ظالموں کے گھروں میں پروان چڑھ رہا ہے اور اس نے ظلم و ستم کی تمام حدود پار کر لی ہیں ۔ کہیں معصوم سنبل،کہیں اسماء اور کہیں باپ کی ننھی زینب کے معصوم بچپن کو ،ابھرتی تعلیم کو ،باپ کی زینت کو باطل کے ہاتھوں بھینٹ چڑھنا پڑا۔ باطل نے دولت و طاقت کے بل بوتے پر ہر چیز خرید لی ہے۔لیکن رفعتِ ایمانی نہ بکتی ہے اور نہ ہی کوئی خریدنے کی طاقت رکھتا ہے۔آج باطل شام ، برما، فلسطین پر اپنا تسلط جما کر بیٹھا ہے لہو کی ندیاں انسانی بستی سے سمندری لہروں کے مانند بہہ رہی ہیں ۔

یہ بھی پڑھئے:  تکبر ، تدبر کھا جاتا ہے

امید تو ہر شخص کو نہ ملنے والے انصاف کی ہے لیکن انتظار خدا کے کرشمے کا ہے ۔ یا تو اب مسیح ؑ کو بھیج کے بنتِ حوا کو بچا لے یا پھر ابنِ آدم کے اندر حیائے انسانی کو پیدا کر دے ۔ تا کہ اگلی بار کوئی حیاء اپنی شرم و حیاء کو بچانے کے لئے خود کشی کا راستہ نہ اپنائے ۔ اب اس حق کے آنے کا انتظار کرنا ہو گا یا اپنے ہاتھوں کو نیکاؤں کے لئے شمشیر بنانا ہوگا ۔
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نم رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن۔

حالیہ بلاگ پوسٹس