Qalamkar Website Header Image

عوامی راہنما ،عوام کے جوتے کی نوک پر

دو دن قبل وزیر خارجہ خواجہ آصف پر ایک مذہبی خیالات کے حامل نوجوان کی طرف سے سیاہی پھینکے جانے کے واقعہ نے میڈیا میں جگہ بنائی۔ اس کی حمایت اور مذمت کا شور ابھی مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر جاری ہی تھا کہ لاہور میں جامعہ نعیمیہ میں ایک تقریب میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی تقریر کے شروع میں ہی ایک شخص نے ان پر جوتا پھینک دیا جو ان کے سینے پر لگ کر ان کے کان پر لگا۔ اس کے بعد فیصل آباد میں تحریک انصاف کے قائد عمران خان کی آمد کے موقع پر ن لیگ سے تعلق رکھنے والے مرزا رمضان کو پکڑنے کی باتوں نے میڈیا اور سوشل میڈیا پر جگہ بنا لی جو مبینہ طور پر عمران خان پر جوتا پھینکنے کے لئے آیا تھا۔ اس کے بیان کے مطابق اسے رانا ثناء اللہ وزیر قانون پنجاب کے داماد نے عمران خان پر جوتا پھینکنے کے لئے بھیجا۔ جسے ایسے کسی بھی واقعہ کے رونما ہونے سے پہلے ہی پکڑ لیا گیا۔

سوشل میڈیا پر جاری بحث میں جہاں اکثریت ان واقعات کی مذمت کر رہی ہے وہاں ایک تھوڑی سی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو اس واقعے کو ان اشخاص سے مذہبی و سیاسی نفرت کو جواز بنا کر ان واقعات کی حمایت کر رہے ہیں۔
علاقائی و عالمی لیڈران پر جوتے پھینکنے کی اس روایت کو شہرت اس وقت ملی جب 14 دسمبر 2008 میں عراقی صحافی منتظر الزیدی نے بغدار میں وزیراعظم ہاؤس میں عراقی وزیراعظم کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے تب کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش پر اپنے دونوں جوتے پھینکے۔ دونوں جوتوں سےامریکی صدر بچ گئے اور جوتا پیچھے لگے امریکی جھنڈے کو جا کر لگا۔ اس سے پہلے 7 اپریل 2008 کو پی پی پی کے ایک کارکن آغا جاوید پٹھان نے سندھ اسمبلی سے حلف کے بعد باہر نکلنے والے سابق وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم کو جوتا مارا تھا۔

ایرانی صدر محمود احمدنژاد پر 2006 میں امیر کبیر یونیورسٹی میں جوتا پھینکا گیا تھا۔ بعد میں 2009 میں ان کے پروٹوکول قافلے پر بھی جوتا پھینکا گیا جب ان کے قافلے سے ایک شخص کا ایکسیڈینٹ ہوا اور ان کا قافلہ اس پر رکا نہیں۔ اپریل 2009 میں انڈیا "جوتا کلب "ممبران بنانے میں کافی مشہور رہا۔ اپریل 2009 میں انڈین کانگریس کے رکن نوین جندال پر ایک سکول ٹیچر نے چپل پھینکی۔اور اسی ماہ میں انڈین وزیرداخلہ چدم بھرم پر ایک سکھ صحافی جرنیل سنگھ نے جوتا پھینکا تھا۔اسی ماہ میں ایل کے ایڈوانی کو بھی جوتا مارا گیا ۔ اور پھر انڈیا کے وزیراعظم منموہن سنگھ پر احمد آباد میں ایک ریلی کے دوران جوتا پھینکا گیا۔ 2009 کے آخر میں ایک عراقی صحافی نے جارج بش کو جوتا مارنے والے منتظر المہدی پر جوتا پھینکا۔

یہ بھی پڑھئے:  اب ٹرک کی بجائے ٹرالر کی بتی کے پیچھے بھاگو – حیدر جاوید سید

7 اگست 2010 کو برمنگھم کے دورے کے دروان سردار شمیم خان نامی شخص نے آصف علی زرداری کو جوتے کا نشانہ بنایا۔ اسی سال ٹونی بلئیر پر انڈا اور جوتا پھینکا گیا۔ 25 اکتوبر 2010 کو آسٹریلوی وزیراعظم جان ہاورڈ کو جوتے کا نشانہ بننا پڑا۔
6 فروری 2011 کو لندن میں پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف پر ایک شخص نے جوتا پھینکا۔چند دن بعد حسنی مبارک پر ایک اجتماع میں جوتے لہرائے گئے۔ 18 اکتوبر 2011 کو عام آدمی پارٹی کے اروند کیجریوال پر لکھنؤ میں جوتا پھینکا گیا۔ اور دسمبر میں محموداحمدی نژاد پر ایک بار پھر جوتا پھینکا گیا۔
جنوری 2012 میں راہول گاندھی پر ایک شخص نے جوتے پھینکے۔ 6 فروری 2013 میں مصر میں محمود احمدی نژاد پر ایک بار پھر جوتا پھینکا گیا جس سے وہ بچ گئے۔ 29 مارچ 2013 میں کراچی کے ایک وکیل تجمل لودھی نے اس وقت سابق صدر پرویز مشرف پر جوتا پھینکا جو ان کے ناک پر لگا جب وہ سندھ ہائی کورٹ سے متعدد کیسز میں ضمانت قبل از گرفتاری کی توسیع کے بعد نکل رہے تھے۔ ستمبر 2013 میں تائیوان میں ایوان صدر کے باہر چین کے صدر پر جوتے پھینکے گئے جن سے وہ بچ گئے۔ستمبر سے نومبر تک متعدد افراد پر جوتے پھینکنے کے واقعات تائیوان میں ہوئے۔

2014 میں لاس ویگاس میں ایک احتجاج کرنے والی خاتون نے ہیلری کلنٹن پر جوتا پھینکا جو انہیں نہیں لگا۔ لدھیانہ میں انڈیا کے یوم آزادی کے موقع پر ایک تقریب کے دوران جب انڈین پنجاب کے وزیراعلیٰ پرکاش سنگھ بادل ڈائس پر تھے ان پر ایک بے روزگار نوجوان نے جوتا پھینکا۔
جنوری 2015 میں بہار کے وزیراعلیٰ جتن رام پر پٹنہ میں جوتا پھینکا گیا۔ 2016 میں اس وقت کے وزیراطلاعات و نشریات پرویز رشید پر جوتے سے حملہ ہوا۔ 2017 میں انڈین پنجاب کے وزیراعلیٰ پرکاش سنگھ بادل پر ایک بار پھر جوتا پھینکا گیا۔
ابھی حالیہ دو ہفتوں کے دوران پیش آئے واقعات میں احسن اقبال، کل رات خواجہ آصف سیاہی کا شکار ہوئے اور آج سابق وزیراعظم میاں نوازشریف جوتے کا نشانہ بنے اور عمران خان مبینہ طور پر ایسے واقعے سے بچ نکلے۔

یہ بھی پڑھئے:  پولیس کا شہریوں پر بہیمانہ تشدد

حالیہ واقعات کو دیکھتے ہوئے ایک منظر نامہ یہ نظر آ رہا ہے کہ یہ معاملہ اب سنگین رخ اختیار کر سکتا ہے۔ لوگ اپنے مخالفین پر اب جوتے ، سیاہی ، انڈے ٹماٹر پھینکنے کا رواج شروع ہوسکتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں پہلے ہی عدم برداشت اور تشدد کی لہر چل رہی ہے۔ اب مخالفین کی اس طرح تضحیک کی جائے گی۔ خواجہ آصف پر سیاہی پھینکنے والے شخص نے بھی توہین رسالت ﷺ کے متعلقہ قانون کو جواز بنایا اور آج سابق وزیراعظم میاں نواز شریف پر ایک دینی مدرسے میں ہونے والے حملے میں بھی ایک مذہبی جماعت سے تعلق رکھنے والا شخص ملوث ہے۔ جو یہ بات ظاہر کر رہا ہے کہ مستقبل میں اپنے سیاسی مخالفین کو مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنانے کی روایت جڑ پکڑ سکتی ہے۔ جو کہ معاشرے کے لئے کسی بھی صورت مناسب نہیں۔

جو لوگ سیاسی قائدین و نمائندگان سے اپنی مخالفت کا حساب جوتے یا سیاہی پھینک کر اپنی نفرت کا اظہار کر رہے ہیں ان کا یہ غیر مہذب و غیر اخلاقی طریقہ کسی طور پر بھی قابلِ ستائش نہیں ہے۔ اقامہ کیس میں نااہلی کے بعد میاں نواز شریف اور محترمہ مریم صفدر صاحبہ ہر جلسے میں عوامی عدالت کی دہائیاں دے رہے ہیں۔ کچھ عوام اس ردعمل کو "عوامی عدالت” کا ردعمل قرار دے رہی ہے اور میاں صاحب کو اسے برداشت کرنے کی تلقین کر رہی ہے۔ لیکن عوام کا چاہیے کہ اپنے ناپسندیدہ سیاست دان کی تضحیک جوتے پھینک کرکرنے کی بجائے انتخابات میں ان کو ووٹ نہ دے کر کرے۔ جو کہ ایک مہذب اور جمہوری رویے کا عکاس ہو گا۔

حالیہ بلاگ پوسٹس