عجیب بدقسمتی ہے عمران خان خیبر پختونخوا پولیس کو مثالی پولیس قرار دیتے نہیں تھکتے لیکن اس مثالی پولیس کا باوا آدم نرالا ہے۔ مثعال خان قتل کیس کا مرکزی ملزم پی ٹی آئی کا کونسلر عارف خان سال بھر بعد مردان ہی سے گرفتار ہو ادو ملزم ابھی مفرور ہیں لیکن ڈنکے بجائے جارہے پولیس کی فرض شناسی کے دوسری طرف حالت یہ ہے کہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں ڈیرہ اسماعیل خان میں جاری شیعہ نسل کشی کے حوالے سے آئی جی پولیس کے پی کے صلاح الدین نے جو رپورٹ پیش کی وہ جھوٹ کا پلندہ ہی نہیں بلکہ اس کج فہم پولیس افسر کے حوالے سے ان اطلاعات کی تصدیق بھی ہے کہ اسے صوبہ خیبر پختونخوا کا آئی جی لگایا ہی اس لئے گیا تھا کہ وہ شیعہ نسل کشی میں مصروف درندوں اور ان کے سرپرستوں کو تحفظ فراہم کرے۔
سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں آئی جی خیبر پختونخوا نے کہا ڈیرہ اسماعیل خان میں فرقہ واریت ہو رہی ہے نا دہشت گردی۔ شیعہ آپس کی دشمنی میں قتل ہو رہے ہیں(یعنی باہمی جھگڑوں کی وجہ سے جو مختلف وجوہات پر ہیں)اس رپورٹ میں فرماتے ہیں کہ حسینی ٹائیگر اور تحریک طالبان سجناں گروپ کی وجہ سے امن درہم برہم ہے۔ حسینی ٹائیگر کیا ہے اگر کوئی تنظیم ہے تو یقیناًیہ آئی جی کی سربراہی میں کام کررہی ہوگی کیونکہ ملک کے دوسرے ادارے اور ذرائع ابلاغ نے دیرہ میں مختلف الخیال طبقات کے لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ میں کبھی حسینی ٹئیگر نامی تنظیم کے ملوث ہونے کی خبر دی نہ تصدیق کی نا ہی دیرہ شہر میں اس حوالے سے کوئی بازگشت ہے۔ طالبان کے سجناں گروپ کے لوگوں کی اپنے ہی قبیلے (محسود قبیلے) کے کچھ لوگوں سے خاندانی دشمنیا ں تھیں اس تناظر میں پچھلے کچھ عرصہ میں چند واقعات ہوئے ان واقعات کو بعد ازاں سرکاری وغیرسرکاری طالبان کے جھگڑے کے طور پر پیش کیا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں جاری شیعہ نسل کشی میں انجمن سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوئی، جنداللہ اور ٹی ٹی پی نہ صرف براہ راست ملوث رہے بلکہ ان تنظیموں نے وارداتوں کی ذمہ داریاں بھی قبول کیں۔ ان تنظیموں کے بعض لوگوں کو جس طرح جے یو آئی (ف) کے ذریعے مین سٹریم میں لانے کا ڈرامہ رچایا گیا وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔چلیں اگر مان لیا جائے کہ اہل تشیع باہمی دشمنیوں کی وجہ سے قتل ہوئے ہیں تو ایک سوال ہے کیا ڈیرہ میں قتل ہونے والے پولیس والے بھی باہمی دشمنیوں کی بھینٹ چڑھے یا پھر بڑے پولیس افسروں نے کسی خاص مقاصد کے لئے کرائے کے قاتلوں کے ذریعے انہیں قتل کروایا؟۔
مجھے یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ آئی جی خیبر پختونخوانے سینٹ کی کمیٹی میں جو رپورٹ جمع کروائی اور بیان دیا اس کے حوالے سے چند دن قبل وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں حتمی منظوری دی گئی تھی صوبائی حکومت شیعہ نسل کشی کے حوالے سے سوشل میڈیا اور اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین اور خبروں سے خاصا دباؤ میں ہے اس دباؤ کو کم کرنے کے لئے ایک من گھڑت رپورٹ تیار کی گئی سو یہ کہنا بجا ہوگا کہ یہ بنیادی طور پر تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کا سرکاری موقف ہے اور اس کی وجہ سپاہ صحابہ اور طالبان کے گارڈ فادر مولوی سمیع الحق کے ذریعے دونوں تنظیموں کو یہ یقین دہانی کروانا ہے کہ حکومت ان کی سرگرمیوں کے آڑے نہیں آئے گی۔
سوال یہ ہے کہ آئی جی کے منصب پر بیٹھے پولیس افسر کو قانون اور شہری امن عزیز ہونا چاہئے یا حقائق کو مسخ کرنے میں حصہ ڈالنا چاہئے؟۔ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ موجودہ آئی جی کی تقرری کے وقت بھی بعض حلقوں نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ شدت پسندی کے حوالے سے تقسیم شدہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افسر کو صوبہ کا آئی جی لگانا بُرا تجربہ ثابت ہوگا وہ کالعدم تنظیموں میں اپنے قبیلے کے لوگوں کی موجودگی کی وجہ سے قانون کی عملداری کو یقینی نہیں بنا سکیں گے ثانیاً یہ کہ خود ان کا فہم بھی ایک خاص عقیدے کا حامل ہے وہی عقیدہ جو پاکستان شیعہ نسل کشی کو جہاد اسلامی قرار دیتا ہے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی داخلہ کے ارکان اس آئی جی سے پوچھتے کہ اگر ان کی رپورٹ کو درست مان لیا جائے تو وہ بتائیں کہ مبینہ حسینی ٹائیگر کے اب تک کتنے ارکان پکڑے گئے۔ اور یہ کہ اگر شیعہ ذاتی دشمنیوں میں قتل ہورہے ہیں تو پولیس نے مقتولین کی ایف آئی آرز دہشت گردی کی دفعات کے تحت کیوں درج کیں؟۔بدقسمتی سے کسی نے بھی یہ سوال ان سے دریافت نہیں کیا اور وہ اپنی ہانک کر نکل گئے۔
آئی جی پختونخوا کچھ عرصہ قبل دیرہ کے دورہ پر آئے اور درباری امن کمیٹیوں سے ملاقات کرکے چلے گئے عوام اور متاثرہ پولیس اہلکاروں کے خاندانوں میں ان کے اس طرزعمل پر شدید ردِعمل سامنے آیا۔ اس ردِعمل کے بعد دیرہ اورپشاور کے کچھ ’’وفادار‘‘ پولیس افسرواہلکار متاثرین کو دھمکاتے رہے۔ اب جو آئی جی پولیس نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی میں بیان اور رپورٹ کے ذریعے تنازعہ کھڑا کردیا ہے اس پر ایک ردِعمل تو اہلیان دیرہ بلکہ یوں کہیں کہ متاثرہ خاندانوں کی طرف سے سامنے آیا ہے ثانیاً یہ کہ یہ امر بھی دو چند ہوا ہے کہ دیرہ میں سرائیکی بولنے والے اہل تشیع، صوفی سنیوں اور دیگر کی ٹارگٹ کلنگ کے پیچھے جو گروہ سرگرم عمل ہیں آئی جی پولیس نہ صرف ان سے مکمل رابطے میں ہیں بلکہ وہ بھی اس سازش کاحصہ ہیں جو دیرہ کو اس کی قدیم آبادی سرائیکی بولنے والوں سے خالی کرانے کے لئے رچائی گئی اور اس پر پچھلے دو عشروں سے کسی نہ کسی طرح عمل ہو رہا ہے۔
یہاں ایک سوال اور ہے وہ یہ کہ حالیہ مہینوں میں دیرہ شہر میں جو اہل تشیع یا جے یو آئی (ف) کا ایک کارکن تہموربلوچ (یہ کارکن پہلے لشکر جھنگوئی کا سرگرم عسکری تھا) قتل ہوا قتل کی ان وارداتوں کی سی سی ٹی وی ویڈیوز میں قاتلوں کی شناخت بہت واضع ہے۔ پولیس ان قاتلوں کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی کیا اس ناکامی کے حوالے سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ٹارگٹ کلرز آئی جی خیبر پختونخوا کی کسی خصوصی فورس کا حصہ تھے اس لئے انہیں واضع شناخت کے باوجود گرفتار کرنے سے گریز کیا گیا؟۔الزام لگانا بہت آسان ہے اصل معاملہ اسے ثابت کرنا ہے۔ جس طرح کی رپورٹ اور بیان انہوں(آئی جی کے پی کے) نے قائمہ کمیٹی کو دیا ہے اس طرح کی درجنوں رپورٹس نصف گھنٹے میں تیار کرکے ثابت کیا جاسکتا ہے کہ ٹارکگٹ کلرز کا گروہ آئی جی پختونخوا کی سربراہی میں کام کرتا ہے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر آئی جی جیسے ذمہ دار آفیسر صوبائی حکومت کی سیاسی ساکھ کی خاطر مقتولین کے ورثا کے زخموں پر نمک پاشی کریں گے تو لوگ انصاف اور قانون کی بالا دستی کے لئے کس سے امید باندھیں گے؟۔کیا ہم امید کریں کہ آئی جی کے پی کے صلاح الدین اپنے بیان اور رپورٹ کو درست ثابت کرنے کے لئے جو ڈیشل کمیشن کے قیام کے لئے درخواست کریں گے؟۔تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn