زن ومرد نوع انسانی کی دو اصناف ہیں ۔انسانی سماج انہی دو پہیوں پر قائم ہے جنہیں مرد اور عورت کہا جاتا ہے۔ کسی بھی سماج کو پرکھنے کا معیار یہ ہے کہ اس میں مرد و زن کا انسانی مقام کس حد تک ہے؟ سماج ان دونوں اصناف کو کیا مقام دیتا ہے؟ یہ دیکھنے کے لئے کہ کونسا سماج کتنا انسانی اور کتنا غیر انسانی ہے ؟ اس سماج میں عورت کا مقام دیکھا جاتا ہے۔یہاں یہ بات یاد رہے کہ عورت ہو یا مرد اصل چیز ہے انسانی کرامت ، انسانی عزت و شرف کا تحفظ ۔جب کہ اس موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں عورت تو کیا مرد کی بھی عزت و حرمت محفوظ نہیں۔
انسان ، صرف انسان ہونے کے ناطے شرافت و کرامت ذاتی کا مالک ہےاور یہ شرافت کسی ایک صنف کے ساتھ مخصوص نہیں۔ عورت کی انسانی حیثیت اتنی ہی ہے جتنی مرد کی۔یاد رہے یہاں ہم جسمانی فرق کی بات نہیں کررہے ۔جسمانی لحاظ سے مردو عورت میں فرق پایا جاتا ہے۔لیکن عزت و حرمت کا ، شرافت و کرامت انسانی کا تعلق اس کے جسم سے نہیں، اسکے وجود سے ہے۔وجود انسانی ایک ذی شرف وجود ہے۔ نوع انسانی کے کسی فرد یا کسی صنف کی توہین انسان کی توہین ہےاور کسی ایک صنف کو کم تر اور دوسری صنف کو برتر قرار دینا بھئ انسانیت کی توہین ہے۔صنف کا فرق صرف جسمانی فرائض کے لحاظ سے ہے۔ عورت و مرد کے فطری فرائض مختلف ہیں۔لیکن وجودانسانی ہونے کے ناطے ان کی کرامت برابر ہے۔ان کی عزت و حرمت برابر ہے۔
فیوڈل ازم ہو یا کیپٹل ازم ان دونوں سماجی و معاشی نظاموں نے انسان سے اس کی انسانیت چھین رکھی ہے
اور ان کے ستم کا خاص شکار عورت ہے۔فیوڈل ازم نے عورت کو قیدی بنا کررکھا ہے۔ اس کو عورت پر اعتماد و اعتبار ہی نہیں۔ فیوڈلسٹ عورت کو گھر سے نکلنے نہیں دیتا کہ کہیں وہ اس کے حق میں خیانت نہ کردے۔ حالانکہ وہ خود خیانتیں کرتا رہتا ہے۔کیپٹلسٹ عورت کو ایک مشین سمجھتا ہے۔ وہ اس سے کام لینا چاہتا ہے۔ اس لئے اس کو گھر سے باہر نکالتا ہے تاکہ اسے سستی لیبر مل سکے۔
فیوڈلسٹ اور کیپٹلسٹ دونوں کی سوچ مختلف ہوتے ہوئے بھی عورت کے حق میں زہر قاتل ہے۔دونوں عورت کو اسکے انسانی مقام سے گرادہتے ہیں ۔جب کہ انسانیت کا تقاضا صرف اور صرف یہ ہے کہ دونوں صنفوں کو ان کا جائز مقام دیا جائے۔عورت اور مرد دونوں حق حیات سے بہرہ مند ہونے چاہئیں۔ دونوں کو انسانی حقوق برابر طور پر ملنے چاہیں۔عورت کئ بات خاص طور پر اس لئے ہوتی ہے کہ وہ زیادہ ستم کا شکار ہے۔
موجودہ سماجی سسٹم میں عورت گھر میں رہے یا جاب کرے دونوں صورتوں میں اس پر ستم روا رکھا جاتا ہے۔ اس کی حق تلفی کی جاتی ہے۔جب کہ عورت کے انسانی شرف کا تقاضا یہ ہے کہ وہ گھر میں رہے یا اسکول و کالج، یونیورسٹی یا فیکٹری میں جاب کرے۔ہر صورت میں اس کی عزت و کرامت محفوظ رہنی چاہئے۔
جاب پہ جائے تو کوئی اس کی مجبوریوں سے فائدہ نہ اٹھائے۔ اس کو مرد کے برابر تنخواہ ملے۔ کوئی اس کو جنسی طور پر ہراساں نہ کرے۔ اسکو پرسنل سیکرٹری بنا کر کوئی آفیسر اس کی مجبوریوں سے فائدہ نہ اٹھائے۔
جہاں تک عورت کے گھر میں محدود رہنے کی بات ہے تو اس کے سماجی ہی نہیں انسانی نقصان بھی زیادہ ہیں
صرف ایک پہلو کو دیکھ لیں جب عورت گھر کی حد تک محدود ہوجاتی ہے تو پھر ازداوجی زندگی کا ایک ہی طریقہ رہ جاتا ہے ۔اور وہ یہ کہ لوگ شادی کے لئے رشتہ دیکھنےگھروں میں آتے ہیں۔اب جب لوگ گھر میں آتے ہیں۔ پہلے تو اس کا معائنہ کیا جاتا ہے! جانوروں کی طرح اس اس کے جسمانی خدوخال ، اس کی قدوقامت ناپی جاتی ہے۔اگر ان کے خوبصورتی کے معیار پر پوری نہ اترے تو اس کو ریجیکٹ کرکے چلے جاتے ہیں۔تو کیا یہ عورت کے انسانی مقام کی توہین نہیں ؟ ذرا سوچئے!
کیا عورت ایک بھیڑ بکری ہے ؟ کیا عورت ایک متاع بازار ہے؟ کہ لوگ اس متاع کو دیکھنے آئیں اور دل چاہے تو پسند کریں دل چاہے تو ریجیکٹ کردیں!!کیا عورت کے کوئی انسانی احساسات و جذبات نہیں؟عورت کو گھر میں محدود رکھنے کے حامی اس پہ بھی سوچیں ! کیا عورت اپنی زندگی اور شریک زندگی کے انتخاب کا حق نہیں رکھتی!؟
یہاں فیوڈل سسٹم کی جڑیں ابھی تک مضبوط ہیں اور اسی کے اثرات سوچ پر بھی ہوتے ہیں اور ہمارے فیوڈل سوچ کے حضرات عورت کو گھر میں محدود رکھ کر اس کو صرف بھیڑ بکری بنارہے ہیں۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ عورت کو ایک مکمل انسان کی زندگی جینے کا حق ہے۔وہ زندگی کے ہر شعبے میں کام کرسکتی ہے۔ وہ علم کی دنیا میں مادام کیوری اور سماجی خدمت کے شعبے میں مدر ٹریسا اور روتھ فاؤ بن سکتی ہے۔
سماجی سسٹم ایسا ہونا چاہئے جس میں عورت کی انسانی حیثیت کا استحصال نہ ہو۔ وہ ایک آزاد و خودمختار زندگی گزارنے کا پورا حق رکھتی ہے۔اور کوئی اس سے یہ حق چھین نہیں سکتا۔سماج کے بدلتے ہوئے رویئے شاہد ہیں کہ عورت کو اب گھر میں بھیڑ بکری کی طرح بند نہیں رکھا جاسکتا۔لیکن ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ گھر سے باہر بھی اس کی انسانی حیثیت محفوظ رہے۔اس کے لئے ہمیں زرپرستی پر مبنی اس سماج کو بدلنا ہوگا۔سماجی سسٹم کی تبدیلی کے بغیر عورت کو اس کا جائز مقام نہیں مل سکتا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn