خدا وندِ عالم نے انسان کو احسن تقويم ميں خلق کيا تقويم سے مُراد کسی شئے کو مناسب صُورت ، عمدہ کيفيت ميں لانا ہے يعنی اس کے وجود ميں ہر قسم کی استعداد رکھی کس قدر حيرت انگيز بات ہے کہ خالقِ کائنات تين تاريکيوں کے ماحول ميں پانی پر تصوير اور نقش و نگار بناتا ہے انسان تصوير بنانے کے لئے روشنی کا اہتمام کرتا ہے مگر خالق ،انسان کی تصوير بنانے کے ليے نور اور روشنی کا محتاج نہيں انسان کی بنائی ہوئی تصوير نہ بولتی ہے اور نہ سنتی ہے نہ ديکھتی اور سمجھتی ہے مگر خدا تعالیٰ دیکھنے والی سُننے والی بولنے اور عقل و شعور رکھنے والی مخلوق کو تشکيل ديتا ہے پھر کمال کی بات یہ ہے کہ ہر بچے کی شکل و صورت الگ الگ بنائی اور یہی اختلاف ايک دوسرے کی پہچان کا ذريعہ بنا۔ وجودِ انسانی خدا کے وجود کی عظيم نشانيوں ميں سے ايک ہے
خدا نے اس (انسان )تخلیق کو وجود ميں لانے کے لئے عورت کو عظيم منصب عطا کيا ۔ چاہے کوئی بڑے سے بڑا عالم فاضل یا کسی بھی بلند مرتبے تک پہنچ جائے لیکن اس کی جنت اس کی ماں قدموں ميں رکھ دی
اور پھر جب اپنی محبت کا اظہار کيا تو اس کا ذريعہ اور مثال بھی عورت کے وجود کو بنايا اور کہا کہ اگر میری محبت کا اندازہ لگانا ہو تو ماں کی محبت کو دیکھ کر لگا لو کہ میں اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے بھی زيادہ پيار کرتا ہوں
آج دنيا ميں جتنے بھی ماہرِ نفسيات ہيں ان کی تحقيق اور مشاہدے سے يہ بات ثابت ہے کہ ماں جو کچھ بھی سوچتی ہے جو بھی عمل کرتی ہے اُس کے اثرات ہونے والے بچے پہ پڑتے ہيں اور پھربچے کے ابتدائی پانچ برس جو اس کی تربيت کے ليے نہايت اہم ہوتے ہيں ماں کی گود کو پہلی درس گاہ قرار ديا۔ اگر عورتوں ميں کوئی صلاحيت نہ ہوتی تو خدا يہ اہم کام اس کے سپرد ہرگز نہ کرتا۔
تاريخ کے اوراق کھوليں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر زمانے ميں اور تقريباً ہر خطۂ ارض پر عورتوں کے ساتھ ظلم و زيادتی کا نشانہ بنایا گيا کہيں اپنے عيش و أرام کی خاطر اس کو خريدا گيا کبھی حيوانوں سے بد تر سلوک روا رکھا گيا
قديم عرب معاشرے ميں بیٹی پیدا ہی زندہ گاڑ دی جاتی اور کہیں ايسے رسم و رواج کی بھینٹ چڑھا کے شوہر کے ساتھ ہی دفنایا جاتا یا جلا ديا جاتا بیوہ کے لئے ہر خوشی حرام تھی عورت کو بُرائی کا مجسمہ جیسے القابات سے نوازا جاتا کوئی معاشی معاشرتی سماجی حقوق حاصل نہ تھے أزادانہ خريد و فروخت کے کام لائی جاتی۔ اور ساری زندگی باپ بھائی شوہر اور بیٹوں کی محکوم ہوا کرتی تھی آج بھی مسائل اور مظالم کا سلسلہ مختلف طریقوں سے موجود ہے گھر ميں امتيازی سلوک ، پسند کی شادی کا اختيار نہ دينا ،نو عمری ميں شادی حمل و زچگی کی پیچیدگيوں سے گزرنا ظلم و ستم کا نشانہ بنائے جانا کبھی غيرت کے نام پہ قتل کبھی بدلے کی أگ ميں جل کر تيزاب پھينکنا جيسے واقعات أئے روز سُننے کو ملتے ہيں
لہٰذا یہ بات سمجھنے کی ہے جہالت اور نادانی انسانيت کے لئے ايک بہت بڑی بلا ہے اکثر اخلاقی ،نفسياتی ، اجتمائی اور انفرادی تباہيوں بدبختيوں کا سر چشمہ يہ عوامل ہيں شايد کسی بھی دين ، قانون اور مذہب نے حصولِ علم کی اتنی تاکيد نہيں کی جتنی دينِ اسلام نے کی
دراصل دين نے جو آزادی خود مختاری اور عظمت عطا کی ہے اس کی روشنی ميں اپنے حقوق سے روشناس نہ ہونا اور اپنے مقام و مرتبے کو نہ پہچاننے کی وجہ سے أج عورت بے اعتمادی اور ظلم کا شکار ہے۔خواتين کے عالمی دن کے موقعے پر تين ايسی شخصيات کا تذکرہ ضروری ہے جن کی سيرت تمام عورتوں کے لئے نمونۂ عمل ہے تاريخ کے اوراق پہ اگر نگاہ ڈاليں تو حقيقت أشکار ہوتی ہے کہ جہادٰ زندگانی ميں خواتين کی سعی اور کوشیش مردوں کے برابر رہی ہے
جنابِ خدیجۃالکبری سلام اللہ عليہا کی شخصيت وہ ہے کہ آپ دنيائے عرب کی وہ ملکہ تھيں کہ جِس کی مثال کہيں نہںں ملتی ليکن اپنی ساری دولت دين کی راہ میں خرچ کر کے احیائے اسلام کی جِدوجہد ميں آپ کا آنحضرت ص کے ہمراہ کٹھن ترين منازل طے کرنا تاريخِ اسلام کا بے نظير باب ہے آپ کی ايثار اور قربانی نے اسلام کی بنيادوں کو مضبوط کیا اور أپ کے اس عمل کو خداوندِ عالم نے اپنا عمل کہا۔
خاتونِ جنت جنابِ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ذاتِ گرامی کائنات کی تمام عورتوں کی سردار اور عالمِ انسانيت کے لیے مینارۂ نور ہیں ايک ايسی کامل ترين ہستی جو اپنی روح ، فکر ، علم و دانش ، ذہد و عبادت اور ثابت قدمی حتیٰ کہ زندگی کے تمام امور میں ايک اعلیٰ و ارفع نمونۂ عمل ہيں ۔ أپ کی عظمت کی دلیل کے ليے يہ حدیث کافی ہے کہ رسول اللہ ص نے فرمايا فاطمہ میرجگر کا ٹکڑا ہے تو اب جو بھی خصوصيات رسول اللہ ص کی ذات ميں موجود ہيں وہ تمام جنابِ سیدہ ميں بھی موجود ہيں۔
تاريخِ عالم کی ايک اور مثالی خاتون جنابِ زينب سلام اللہ عليہا جنھوں نے بقائے اسلام کی خاطر ان تمام مراحل کو خندہ پیشانی سے اس طرح طے کيا جس ميں بڑے بڑوں کے حوصلے پست ہو جاتے ہيں مگر آپ نے اپنے کردار کی عظمت اور انقلابی خطبات سے ضميرِ انسانی کو قيامت تک کے لیے بیداری کا جام پِلا ديا
پرديس ميں عزيز و اقارب کا جدا ہونا وہ بھی اس انداز سے کہ جس کے تصور سے ہی انسان کانپ اُٹھے وہ سب آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھے اور ان حالات ميں اگر کوئ عام خاتون ہوتيں تو غم سے نڈھال ہو کر بيٹھ جاتيں ليکن آپ اپنی پوری طاقت اور کامل آگاہی سے اُٹھيں اوراس لشکر ميں موجود خواتين اور بچوں کی سر پرستی فرمائی اور مقصدِ حسين ع کو استعماری و طاغوتی سازشوں کے باوجود پسِ پردہ جانے نہيں ديا اور اپنے خطبات سے دشمنوں کے عزائم کو خاک ميں ملا کر حق کو اس طرح أشکار کيا کہ مقصدِ حسين ع کو تاریخ کی تاريک راہداريوں ميں گُم ہونے سے بچايااور ظالم کی اس طرح پہچان کرائی کہ ہمیشہ کے لئے لعنت اور ملامت کا حق دار بنا ديا
آج کی خواتين اگر حقيقتاً اپنے منصب وعظمت کو پہچان ليں اور ان مخدراتِ عصمت کے سيرت و کردار کو نمونۂ عمل بنائيں تو حُريت ، شجاعت تہذيب ، آگاہی ، عزت و عفت ، اورعظيم مقاصد کی تکمیل اس درسگاہ سے سُرخرو ہو کر ہی ممکن ہےاوراپنی حفاظت کے حصار کے بعد ہی ایک طاقتور آواز کی صورت ميں زمانے کے ہر غاصب اور جابر کی أواز کو دبا سکتی ہيں۔ ليکن اپنی قدر و منزلت کو نہ جاننے کی صورت ميں اور دامنِ عصمت سے منسلک نہ ہونے کی وجہ سے آزادئ نسواں کے نام پر ايک کٹھ پُتلی کی مانند اپنی منزل اور ہدف سے دُور ايک گم نام راستے پر ہميشہ گامزن رہيں گی۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn