Qalamkar Website Header Image

کیا ہم سب ایک ہیں۔۔۔۔۔۔؟؟

abdul-razaq-shareef-e1463553303815انسان نے معاشرہ کی تخلیق ضرورت کے تحت کی تھی کیونکہ اسے دو بنیادی مسائل کا سامنا تھا جن میں سے ایک وسائل کی منضفانہ تقسیم اور دوسرا ظلم و زیادتی کی صورت میں انصاف کا حصول تھا مگر ہمیشہ کی طرح جس کی لاٹھی اسکی بھینس کے اصول کے مصداق فیصلہ کرنے کا اختیار طاقتور کے پاس چلا گیااور معاشرے کے بااختیا ر اور طاقتور ادارے جن میں فوجی اشرافیہ ،مذہبی پیشوائیت،سرمایہ دار اور جاگیردار شامل تھے نے ذرائع ابلاغ و پیداوار پر اپنا تسلط برقرار رکھااور میڈیا بشمول فلم ،کارٹون اور نصابی کتب کو اپنے مْقاصد کے لیئے استعمال کرتے رہے مزید برآں سنسر شپ کے بہت سارے قوانین کے ذریعے آج بھی عوام کی آواز بننے والے اخبارات،رسالوں اور ڈراموں پر پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں اور کمزور بیچارہ منہ تکتا اور انصاف کیلیئے دہائی دیتا ہی رہ جاتا ہے۔اسی طرح معاشرے میں جب طبقاتی تقسیم گہری ہوتی ہے تو نتیجہ نفرتوں اور کدورتوں کی صورت میں نکلتا ہے۔طاقتور جب بھی تمام وسائل پر غاصبانہ قبضہ کرتا ہے تو کمزور کے پاس سوائے احتجاج اور انتقام کے کوئی راستہ نہیں بچتا۔
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یونانی معاشرے پر جب تک طبقاتی تقسیم کی گہری چھاپ تھی تو عوام ، امرا سے نفرت اور بیزاری کا اظہار کرتے اور ان کی املاک کو نقصان پہہنچانے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے مگر جب عام لوگوں کواظہار رائے کی آ زادی اور مراعات دی گئیں تو طبقاتی تقسیم کا خاتمہ ہو گیااورامراء کی املاک کو نقصان پہنچانے والے ہی ان کے محا فظ بن گئے اور یونان نہ صرف داخلی طور پر مضبوط معاشرہ بن کے ابھرا بلکہ ایرانی حملے کی صورت میں یونانیوں نے قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود ان کو ناکوں چنے چبو ا دیئے ۔یہ تاریخ کا سبق ہے کہ ا گر عام لوگوں سے معاشی اور معاشرتی رواداری برتی جائے تو ملک کو درپیش اندرونی اور بیرو نی مسائل کی صورت میں یہ لوگ بڑی جوان مردی سے ان مسائل کا سامنا کرتے ہیں جبکہ اس کے بر عکس ناانصافی اور نفرت کے نتیجہ میں یہی لوگ ملک دشمن عناصر کا کردار ادا کرنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں۔
اگر ہم قیام پاکستان سے لے کرموجودہ دور کے حالات پر نظر ڈالیں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ اشرافیہ اور عام لوگوں کے درمیان طبقاتی تقسیم بڑھتی ہی جا رہی ہے۔قیا م پاکستان کے بعد اشرافیہ جس کو کہ عوام کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہیئے تھا ،نے اپنی علٰیحدہ دنیا بسا لی اور اپنے لیئے سکول،کالج اور الگ یونیورسٹیاں قائم کر لیں حتیٰ کہ علاج معالجے کیلئے ہسپتال تک الگ بنا لیئے اور اس مقصد کے لیئے انہوں نے غریب عوام کے حقوق پرڈاکہ ڈالا اور کالا دھن کمانے کے لیے سب جائز اور نا جائزذرائع استعمال کیئے۔ان کے اس طرز عمل کی بنیادغریبوں کے استحصال پر رکھی گئی جہاں جاگیرداروں اور وڈیروں نے مزارعوں کو اپنا زر خرید سمجھا تو دوسری طرف فوجی جرنیلوں نے عام لوگوں کو بلڈی سویلینزجسکا نتیجہ تفریق کی صورت میں نکلا اور بات نفرتوں اور انتقام تک جا پہنچی ۔ ایسی صورت میں ملک دشمنو ں کو خوب کھل کھیلنے کا موقع ملااور انہوں نے ملک پاکستان سے ہی خستہ حال اور پسے ہوئے نو جوانوں کو خود کش حملوں کی ترغیب دے کر انتقام پر ابھارااور ساٹھ سالہ بوئی ہوئی فصل ہمیں بلوچوں کی علٰحدگی پسند تحریک اور خود کش حملوں کے طور پر کاٹنی پڑیَ۔صورتحال کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے قبایلی علاقوں میں فوجی آپریشن شروع کئے گئے اور ساتھ ہی ساتھ بلوچوں کو قومی دھارے میں لانے کی کوششوں کا آغاز ہواجس کے نتائج عارضی طور پر امن قائم ہونے کی صورت میں توحاصل ہو گئے لیکن جب تک عوام کو فوری اور سستا انصاف انکی دہلیز پر نہ مہیا کیا جائے،پارلیمنٹ میں ان کے حقوق کی نہ بات کی جائے اور معاشی اور معاشرتی تفریق کا خاتمہ نہ کیا جائے بلکہ محض معاشرتی علوم کی کتابوں میں مادر وطن سے وفاداری نبھانے کے وعدے اور ترانوں اور ملی نغموں کے ذریعے سے قوم کو پیغام دینا کہ ہم سب ایک ہیں ایسا لالی پاپ ہے جس کے زریعے سے اب عوام زیادہ دیر تک بہلنے والے نہیں ہیں۔

حالیہ بلاگ پوسٹس