کلارا زیٹکن، سوشلسٹ ڈیموکریٹک پارٹی جرمنی کی سرکردہ لیڈر تھیں۔5 جولائی 1857ء کو جرمنی کے ایک قصباتی شہر میں پیدا ہوئیں اور پھر وہ جون کی بیس تاریخ سن 1933ء کو اس وقت کے سوویت یونین اور آج کے روس کے ایک شہر میں انتقال کرگئیں۔
وہ جرمنی میں سیکسونی کے ایک گاؤں میں کسان گھرانے میں پیدا ہوئیں،جو پروٹسٹنٹ گھرانا تھا۔1874ء میں کلارا جوزفین ایزنر نے سب سے پہلے عورتوں کی جرمن تحریک سے خود کو وابستہ کیا اور اس کے بعد وہ جرمن لیبر ویمن تحریک سے وابستہ ہوگئیں جس پہ اس وقت سوشلسٹ ورکرز پارٹی جرمنی کا اثر تھا اور یہی پارٹی آگے چل کر سوشلسٹ ڈیموکریٹک پارٹی جرمنی میں بدل گئی۔کلارا 1878ء میں اس کی رکن بنیں۔اور جب ایس ڈی پی نے پہلی جنگ عظیم کے دوران جنگ باز شاؤنزم دکھایا تو کلارا نیو سوشل ڈیموکریٹ پارٹی میں چلی گئیں جو بعد ازاں سپارٹکس لیگ اور پھر کمیونسٹ پارٹی آف جرمنی میں بدل گئی۔
کلارا زیٹکن نے عورتوں کے حقوق کی سرگرم کارکن کے طور پہ اپنے سیاسی-سماجی کیریئر کا آغاز کیا۔لیکن جلد ہی ان کو یہ احساس ہوگیا کہ طبقاتی سوال سے عورتوں کی جدوجہد کو جوڑے بغیر عورتوں کی برابری اور ان کی نجات کا سوال حل نہیں کیا جاسکتا۔تو وہ محنت کش عورتوں کے حقوق کی تحریک کا حصّہ بن گئیں۔
انھوں نے 1894ء میں اپنی پارٹی کی عورتوں کے لئے جاری کردہ رسالے’مساوات’ میں سرمایہ دارانہ تحریک نسواں اور محنت کش عورتوں کی تحریک کے درمیان فرق واضح کرنے کے لیے لکھنا شروع کیا۔یہ رسالہ انھوں نے 1891ء میں شروع کیا تھا اور وہ اس کی بانی ایڈیٹر تھیں۔
کلارا زیٹکن نے 1894ء میں اس رسالے میں بتانا شروع کیا کہ سرمایہ دار تحریک نسواں اور محنت کش تحریک نسواں دو مختلف سماجی تحریکیں ہیں۔کلارا زیٹکن کے مطابق، سرمایہ دارانہ تحریک نسواں محض اصلاحات تک محدود رہتی ہے۔یہ تحریک صنف/جنس کے درمیان اور اپنے طبقے کے مردوں کے خلاف تحریک کے طور پہ ہی کام کرتی رہتی ہے۔لیکن یہ تحریک سرمایہ داری کے وجود پہ کوئی سوال کھڑا نہیں کرتی۔اس کے برعکس کام کرنے والی عورتیں،طبقے کی طبق کے خلاف جدوجہد اور اپنے طبقے کے مردوں کے ساتھ مشترکہ جدوجہد کے ساتھ عورتوں کے حقوق کی تحریک کو سرمایہ داری سے باہر تحریک نسواں کو نکال کر لے جاتی ہے۔
انیس سو میڑ سوشلسٹ ڈیموکریٹک پارٹی-ایس ڈی پی جرمنی نے اپنی دو سالہ کانفرنس کا انعقاد کیا۔اس کانفرنس میں جہاں اور بہت سے مسائل پہ بحث ہوئی،وہیں پہ مزدور عورتوں کی تحریک پہ بھی تفصیل سے بات کی گئی۔اس نظریاتی اور تنظیمی قوت نے جرمن سوشلسٹ ورکنگ ویمن موومنٹ/جرمن تحریک مزدور نسواں کو بین الاقوامی سوشلسٹ ویمن تحریک کی ریڑھ کی ہڈی بناڈالا۔
انیس سو ستر میں جرمنی کے شہر اسٹوگرٹ میں پہلی عالمی اشتراکی خواتین کانفرنس کا انعقاد ہوا۔اس کانفرنس نے پہلی بار کسی بھی شرط بشمول جائیداد، ٹیکس، تعلیم سے ہٹ کر صرف بالغ ہونے کی بنیاد پہ عورتوں کو ووٹ کا حق دینے کا اعلامیہ جاری کیا۔کیونکہ بالغ حق رائے دہی خواتین کو ملنے سے ہی ان کے دیگر سیاسی و سماجی حقوق کی بازیابی کا راستہ کھل سکتا تھا۔اس کانفرنس میں شریک وفود نے اصرار کیا کہ بالغ حق رائے کے خواتین کے حق کے لئے کام سوشلسٹ پارٹیوں کے ساتھ مل کر کرنا چاہیے اور اس ضمن میں عورتوں کی سرمایہ دار تحریک سے فاصلہ رکھنے کی ضرورت ہے۔
عورتوں کی دوسری بین الاقوامی سوشلسٹ کانفرنس تین سال بعد کوپن ہیگن میں ہوئی تھی۔اس کانفرنس میں بھی محنت کشوں کی طبقاتی جدوجہد کے ساتھ خود کو عالمی اشتراکی تحریک برائے خواتین کو جوڑا گیا۔” ہم تمام سوشلسٹ جماعتوں اور عورتوں کی سوشلسٹ تنظیموں سے کہتے ہیں کہ وہ خواتین کی تحریک کو طبقاتی بنیادوں پہ استوار کریں۔”
دوسری انٹرنیشنل سوشلسٹ ویمن خواتین کانفرنس میں لوئس زیٹ نے ‘خواتین کا عالمی دن’ منانے کی قرارداد پیش کی تو کلارا زیٹکن سمیت 70 ممالک کے وفود نے اس قرارداد کی حمایت کی۔سوشلسٹ ویمن تحریک کے نزدیک عورتوں کے حق بالغ رائے دہی کی حمایت کا مطلب ورکنگ ویمن کے لئے لیبر قوانین بنانا،ماؤں اور بچوں کے لئے سماجی معاونت کی فراہمی،سنگل ماؤں سے برابری کا سلوک،نرسری اور کنڈرگارٹن کی فراہمی،اسکولوں میں مفت کھانے کی ترسیل اور مفت تلیم کی سہولتوں اور بین الاقوامی یک جہتی تھا۔
عورتوں کے عالمی دن، کا مطلب ورکنگ ویمن کا دن تھا اور اس کے فوری مقاصد میں عورتوں کے بالغ حق رائے کا حصول تھا۔لیکن اس کا دور درس مقصد سرمایہ داری نظام کا خاتمہ اور سوشلزم کی فتح ہونے کے ساتھ ساتھ اجرت کی غلامی اور خواتین کی ڈومیسٹک غلامی کا خاتمہ کرنے کے لئے تعلیم اور کئیر ورک کی سماجیت/سوشلائزیشن تھا۔
عورتوں کا پہلا عالمی دن
عورتوں کا پہلا عالمی دن 19مارچ 1911ء کو منایا گیا۔اس دن کو 1848ء میں انقلاب برلن کی یاد منانے کے لئے چنا گیا تھا۔اس سے پہلے یہ شہید سورماؤں کی مارچ میں شہادت کا دن مانا جاتا تھا۔جرمنی میں عورتوں کے پہلے عالمی دن کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے ایک اشتہار کی 20 لاکھ نقول تمسیم کی گئیں۔اور سوشلسٹ ڈیموکریٹ پارٹی جرمنی کے خواتین کے ترجمانے رسالے ‘مساوات’ نے اس دن کو منانے کی یوں دعوت دی تھی:
"ساتھیو! محنت کش عورتو!، محنت کش لڑکیو! مارچ انیس تمہارا دن ہے۔یہ تمارا حق ہے۔تمہارے مطالبے اور حقوق کے پیچھے سوشل ڈیموکریسی اور منظم مزدور کھڑے ہیں۔تمام ملکوں کی سوشلسٹ عورتیں آپ سے اظہار یک جہتی کرتی ہیں۔مارچ انیس تمہاری عظمت کے اعتراف کا دن ہونا چاہئیے۔”
بالغ حق رائے دہی کے مطالبے کے ساتھ،دس لاکھ سے زیادہ عورتیں۔۔۔زیادہ تر اس میں ایس ڈی پی اور یونینوں میں منظم عورتیں جرمنی کی سڑکوں پہ اپنے سماجی اور سیاسی برابری کے مرتبے کی مانگ کرتے ہوئے نکل آئیں۔انہوں نے پاپولر عوامی سیاسی اسمبلیوں کا انعقاد کیا۔صرف برلن میں 42 ایسے عوامی اجتماع منعقد ہوئے۔جہاں پہ عورتوں نے اپنی زندگی کو متاثر کرنے والے مسائل پہ بحث و مباحثہ کیا۔
‘ اظہار خیال کی آزادی، سیاست میں برابری کا حق اور ووٹ کا حق عورتوں کو دو’
یہ نعرے پورے جرمنی میں گونج رہے تھے۔
اس کے بعد پوری دنیا میں ورکنگ ویمن نے اپنے لئے عالمی دن کا تعین کرنے کا فیصلہ کیا۔انیس سو گیارہ میں، محنت کش عورتوں نے امریکہ،سوئٹزلینڈ اور آسٹریا میں 8 مارچ کو عورتوں کا عالمی دن قرار دے ڈالا۔اس کے بعد فرانس، سویڈن، بوہیمیا اور پھر روس نے بھی اس دن کو ‘خواتین کے عالمی دن’ کے طور پہ منانے کا فیصلہ کیا۔
انیس سو چودہ وہ سال تھا جب 8 مارچ کو پوری دنیا میں اس دن کو ‘عورتوں کو ووٹ کا حق دو’ کے نعرے کے ساتھ منایا گیا۔عورتوں نے کالی چادروں اور جھنڈوں کے ساتھ اس دن کو منایا۔جرمنی میں اس دن عالمی جنگ کے جنون پہ غلبہ پالیا تھا۔جرمن پولیس نے اس دن کے حوالے سے پوسٹرز کی تقسیم، لہرانے اور دیواروں پہ چسپاں کرنے کی ممانعت کردی تھی۔عورتوں کا چوتھا عالمی دن سامراجی جنگ جو کہ اس کے تین ماہ بعد پھوٹ پڑی تھی کے جنون کے خلاف بڑے عوامی احتجاج میں بدل ڈالا تھا۔
تین سال بعد، 8 مارچ 1914ء کو عورتوں کے عالمی دن کو ایک نئی اہمیت حاصل ہوگئی تھی کیونکہ عظیم روسی انقلاب فروری 2014ء میں آچکا تھا۔جولین کلینڈر میں جو 23 فروری ہے وہ جارجین کلینڈر میں 8 مارچ ہے۔روس کی محنت کش عورتوں نے اس انقلاب میں اہم ترین کردار ادا کیا تھا۔ہر پارٹی بشمول بالشیوک پارٹی کی مرد قیادت کی مخالفت کے باوجود محنت کش عورتوں نے عورتوں کے عالمی دن کو بڑی عوامی ہڑتال میں بدل دیا اور سارا محنت کش روسی طبقہ پیٹروگراڈ میں اکٹھا ہوگیا اور اس نے عظیم روسی اشتراکی انقلاب کو جنم دیا۔
انیس سو چودہ میں عالمی جنگ چھڑ گئی، اور اس سے عورتوں کی عظیم سوشلسٹ تحریک کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔محنت کشوں کی عالمی تنظیم، دوسری انٹرنیشنل میں تقسیم ہوئی تو خواتین کی عالمی سوشلسٹ تحریک بھی تقسیم ہوگئی۔اس میں مزدور خواتین و مرد کی بین الاقوامیت پہ یقین رکھنے اور اس پہ یقین رہ رکھنے والے قومی شاؤنزم کے حامیوں کی تقسیم سامنے آگئی۔جرمنی میں، ایس ڈی پی اور اس کی ذیلی تنظیم نے ‘سماجی امن’ کی پالیسی اپنائی،اور بڑے بڑے مطاہرے کئے۔اور جنھوں نے خواتین کے عالمی دن منائے جانے کی کوشش کی ان کو حکومت اور پولیس کے جبر کا سامنا کرنا پڑا۔
جون 1921ء میں کلازیٹکن نے ہی کمیونسٹ بلاک سے وابستہ ممالک اور دنیا بھر کی کمیونسٹ پارٹیوں اور دوست محنت کش تنظیموں کو 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منانے پہ راضی کیا۔اور دوسری کمیونسٹ اشتراکی عالمی کانفرنس برائے خواتین میں اس حوالے سے اعلامیہ منظور کرالیا۔اور پھر 1922ء میں آٹھ مارچ کو پہلی بار سب ممالک میں خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔
کلارازیٹکن کی جدوجہد آج پاکستان کی محنت کش عورتوں کے لئے مینارہ نور بن سکتی ہے۔محنت کش عورتوں کے حقوق کی تحریک کو طبقاتی سوال کے گرد تعمیر کرکے ہی عورتوں کی نجات کے سوال کو حل کیا جاسکتا ہے۔
نوٹ : فیچر امیج سوویت یونین میں 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقعہ پہ اجتماع کا ہے اور کلارا زیٹکن کو سفید اوورکوٹ میں نمایاں دیکھا جاسکتا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn