خواتین کی حقوق کی تحریک کو اگر پاکستان کے آئینے میں دیکھا جائے تو ایک طرف اس کا مطلب عورتوں کی برابری ہے تو دوسری طرف اس کا مطلب سماجی زندگی کے تمام گوشوں میں صنف اور جنس/جینڈر کی بنیاد پہ عورتوں سے روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک اور امتیازی قوانین، رسوم و رواج اور ضابطوں سے آزادی ہے۔
پاکستان کے اندر عورتوں کی حقوق کی تحریک کا آغاز دو سطحوں سے ہوا۔ایک سطح وہ تھی جسے ہم پاکستانی اشراف خواتین کی سطح کہہ سکتے ہیں۔یہ وہ خواتین تھیں جنہوں نے سرمایہ دارانہ اصلاح پسندی کے اندر رہتے ہوئے عورتوں کے حقوق کی تحریک کا آغاز کیا۔ہم سابق وزیراعظم خان لیاقت علی خاں کی بیوی بیگم رعنا لیاقت علی خان اور محترمہ فاطمہ جناح کو اس تحریک کا ہراول دستہ قرار دے سکتے ہیں۔انھوں نے اپوا جیسا ادارہ بنایا اور اس نے کم ازکم اوپر اشراف کی سطح پہ پاکستان کے اندر عورتوں کے حقوق کی ایک تحریک شروع کی۔اور یہ کام پاکستان بننے کے چند سال بعد ہی شروع ہوگیا تھا۔
پاکستان میں محنت کش عورتوں کے حقوق کی تحریک کے اولین نشان ہمیں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی بنائی ہوئی مزدور ٹریڈ یونین اور پاکستان کسان رابطہ کمیٹی اور ہاری کمیٹی کے اندر خال خال ملتا ہے۔خاص طور پہ سندھ کے شہروں کراچی اور حیدرآباد میں بیڑی بنانے والے کارخانوں اور ان کارخانوں کے لئے گھر میں کام کرنے والی عورتوں کو ٹریڈ یونین میں منظم کرنے میں کامریڈ بخاری کی بیوی نے بہت اہم کردار ادا کیا۔اور پھر جب ایوب خان کے زمانے میں پاکستان میں ٹیکسٹائل سیکٹر اور اس کے گارمنٹس اور ہوزری کے شعبے نے ترقی کی تو وہاں پہ کام کرنے والی محنت کش عورتوں کو یونینوں میں منظم کرنے میں بائیں بازو کی ٹریڈ یونینز کے کارکنوں نے اہم کردار ادا کیا۔
پاکستان میں عورتوں کے حقوق کی تحریک پر سرمایہ دار اور اشراف مڈل کلاس کی فیمنسٹ خواتین کا غلبہ بائیں بازو کی تحریک کے زوال پذیر ہوجانے سے شروع ہوا اور آج تک یہ اشراف سرمایہ دار نواز فیمنسٹ خواتین اور ان کی این جی اوز نیٹ ورک ہے جس نے پاکستان میں محنت کش عورتوں کی تحریک کے ملک گیر پیمانے پہ منظم ہونے کا راستہ روک رکھا ہے۔اس میں خود بائیں بازو کے گروپوں کی اپنی غلطیوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔
پاکستان میں بائیں بازو کی سب سے بڑی طلباء تنظیم این ایس ایف اور اس تنظیم پہ اثر انداز ہونے والی سیاسی جماعتوں کے اندر بھی فیصلہ سازی کا بڑا مرکز مردوں کے ہاتھ میں رہا اور ان تنظیموں میں عورتیں کبھی اس پوزیشن پہ نہ آسکیں کہ ان کے حقوق کے حوالے سے کوئی بڑے اقدام اٹھائے جاسکتے۔حال ہی میں این ایس ایف کے کارکنوں کی جدوجہد پہ مبنی کتاب ‘سورج پہ کمند’ سامنے آئی ہے۔جس میں این ایس ایف میں لڑکوں کی اکثریت کے سبب لڑکیوں کی کم شمولیت کا مسئلہ پہلے سے موجود ایک تنظیم گرلز اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن میں اپنے ہمدرد بڑھاکر کرنے کا فیصلہ ملتا ہے۔اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے جو خواتین بائیں بازو کی طرف آئیں ان میں سے کئی اہم ناموں کے انٹرویوز اس کتاب میں شامل ہیں۔ ان میں سے ایک بڑا نام انیس ہارون کا ہے۔ہم ان کو زیادہ سے زیادہ لبرل لیفٹ ایکٹوسٹ کہہ سکتے ہیں۔یہ درست ہے کہ انیس ہارون نے سماجی کام میں درمیانے درجے سے تعلق رکھنے والی عورتوں میں کافی کام کیا لیکن ان کی آج کی سوچ لبرل ازم سے آگے نہیں جاتی اور یہ بورژوازی فیمنزم جو بہرحال طبقاتی سوال کو بنیادی سوال سے ہٹاتا ہے اور اس کی جگہ پہ جینڈر کو ہی بنیادی سوال قرار دے ڈالتا ہے اور یہ تاریخ کو ایک جینڈر کی دوسرے جینڈر پہ زیادتی کی تاریخ بناڈالتا ہے۔اور درمیانے طبقے سے آنے والے اکثر لیفٹ کے سابق طالب علم رہنماؤں اور کارکنوں کا بھی یہی حال ہے۔
پاکستان میں عورتوں کے حقوق کی تحریک کے حوالے سے ایک بڑا سنگ میل اس وقت آیا جب جنرل ضیاءالحق نے حدود آرڈیننس جاری کیا اور پاکستان میں اس آڑدیننس کے ذریعے سے عورتوں، اقلیتوں کو خاصا کمتر بنانے کی کوشش کی۔ان قوانین کے خلاف اس وقت ایک اجتماعی تحریک کا آغاز ہوا۔اس تحریک کو اس زمانے میں اے آرڈی میں شامل ترقی پسند سیاسی جماعتوں نے سپورٹ فراہم کی اور پاکستان کا بایاں بازو بھی اس تحریک کے پیچھے کھڑا ہوگیا۔اس تحریک میں اس زمانے میں کچھ خواتین اپنی جرآت و بہادری اور بے مثال ہمت کے سبب ابھرکر سامنے آئیں، پاکستان ویمن ایکشن فورم کی تشکیل ہوئی اور اس فورم نے لاہور میں حدود آرڈیننس کے خلاف 1984ء میں ایک بڑا جلوس نکالا۔اس جلوس میں حبیب جالب بھی شریک تھے۔جبکہ پاکستان کے درمیانے طبقے کی کچھ خواتین جن میں ڈاکٹر حنا جیلانی، مرحومہ عاصمہ جہانگیر ،بیگم نگہت خان، میڈیم نگار ، روبینہ سہگل اور کچھ اور ابھر کر سامنے آئیں۔کچھ مرد حضرات بھی نمایاں ہوئے۔اور یہ خواتین سرماہ دارانہ فیمنسٹ پس منظر میں سے ابھر کر سامنے آئی تھیں اور آگے چل کر انھوں نے پاکستان کے سرمایہ دارانہ سیکولر فیمنسٹ تحریک کی بنیادوں پہ عمارت کھڑی کرنے کی کوشش کی۔عورت فاؤنڈیشن، اثر ریسورس سنٹرز، ساؤتھ ایشیا پارٹنر شپ، اور کسی حد تک انسانی حقوق کمیشن پاکستان۔لبرل اور لبرل لیفٹ چہروں کے ساتھ یہی پاکستان میں عورتوں کے حقوق کی تحریک کا چہرہ بن گئے۔اور پاکستان کے کونے کونے میں محنت کے مختلف سیکٹرز میں موجود عورتوں کی چھوٹی چھوٹی مقامی تحریکیں چاہے وہ مزارعین کی تحریک ہو، ہاری خواتین کے حقوق کی تحریک ہو یا گارمنٹس و ہوزری میں خواتین مزدوروں کی تحریک ہو ان سب کو منظم کرنے کا فریضہ پاکستان میں بائیں بازو کی ایک بڑی جماعت اور اس کے کسی بڑے محنت کش فرنٹ میں خواتین کے لیبر فرنٹ ہونے کی غیر موجودگی کی وجہ سے این جی اوز کی پروجیکٹ گردی اور ان کے فنڈڈ منصوبوں کی نذر ہوگیا۔درمیانے طبقے کی لبرل اشراف خواتین ایکٹوسٹ عورتوں کے حقوق کی تحریک کو محنت کش مردوں کے مسائل کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے میں کبھی سنجیدہ رہی نہیں ہیں۔بلکہ محنت کشوں نے اپنے حقوق کے لئے اگر کسی علاقے، فیکڑی ،کارخانے یا سیکٹر میں کوئی تحریک کھڑی کی اورمحنت کش عورتوں کو منظم کرنے کا کام شروع بھی کیا تو یہ ڈونر کے فنڈ اور پروجیکٹ کے ساتھ وہاں پہنچیں اور ان تحریکوں کو پروجیکٹ میں بدل کر زیادہ متحرک مقامی خواتین محنت کش ایکٹوسٹ اور مرد محنت کش سرگرم کارکنوں پہ مشتمل جو مقامی لیڈر شپ ہوتی ہے اسے اپنے وظیفہ پہ لگاکر پوری فلم ڈمپ کرکے رکھ دی۔
پاکستان میں 80ء کی دہائی میں مغربی ڈونرز کی فنڈنگ سے سرگرم ہونے والے این جی او سیکٹر کے اندر خواتین کے شعبے میں کام کرنے والی این جی اوز بلاشبہ کئی جزوی اچھے کام کیے ہیں۔پاکستان کے اندر عورتوں کے حق میں جانے والی قانون سازی میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔عورتوں پہ مردانہ شاؤنزم کے تحت ہونے والی زیادیتوں کے خلاف شعور پھیلانے میں بھی ان کے کردار کی نفی نہیں کی جاسکتی۔بلکہ کئی خواتین کا محنت کش عورتوں کے اندر کام اس قدر قابل تعریف ہے کہ ان کے کام کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔لیکن ان جزوی اور انفرادی کاموں نے پاکستان میں محنت کش خواتین کو ملک گیر سطح پہ ایک طاقت کے طور پہ منظم کرنے کی طرف کوئی مدد فراہم نہیں کی۔بلکہ اس نے ان کو الگ الگ رکھنے اور کسی بڑی تحریک میں بدلنے سے باز رکھا ہے۔
پاکستان کے اندر پھیلتا ہوا ورکنگ ویمنز کا نیٹ ورک اور کام کرنے والی عورتوں کا سروسز سیکٹر اور صنعتی سیکٹر کے اندر روز بروز اضافہ پاکستان میں محنت کش عورتوں کے ایک ملک گیر پلیٹ فارم کا تقاضا کرتا ہے۔ایسی تنظیم جو سرمایہ دارانہ فیمنزم کی حامل خواتین قیادت کی بجائے محنت کش لیڈر عورتوں پہ مشتمل ہو جو اس تحریک کو محنت کش مردوں کی تحریک کے ساتھ جوڑے اور اس طرح سے ورکنگ کلاس کے درمیان حقیقی یک جہتی نظر آئے۔
پاکستان میں محنت کش عورتوں کی تنظیم کاری کا سوال جہاں بہت اہمیت کا حامل ہے وہیں پہ یہ مین اسٹریم میں آنے کے لئے بھی مشکلات کا پہاڑ اپنے سامنے دیکھتا ہے۔اس کی سب سے بڑی مشکل پاکستان میں اس وقت غالب سرمایہ دارانہ سیکولر لبرل فیمنسٹ بیانیہ اور اس کے علمبردار اور ان کے مدمقابل قدامت پرست رجعت پرست عورت مخالف بیانیہ اور اس کے علمبردار ہیں۔پاکستان کی اس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اس وقت لیفٹ کے نام پہ مین اسٹریم میڈیا پہ نظر آنے والے کئی ایک خواتین چہرے بھی لبرل فیمنسٹ چہرے ہیں اور وہ سرمایہ داری سے اوپر اٹھ کر دیکھنے کو تیار نہیں ہیں۔
آج کل تو پاکستان میں بائیں بازو کی عورتوں کی تحریک کو اور صدموں کا سامنا ہے۔سب سے بڑا صدمہ تو یہ ہے اس تحریک کے کئی بڑے نام جمہوریت کے نام پہ نواز شریف کی بادشاہت کی بحالی کی سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا پہ چلنے والی تحریک کا حصّہ بنے ہوئے ہیں۔اور اتنے خشوع و خضوع سے وہ یہ تحریک چلارہے ہیں جیسے عورتوں کی نجات نواز شریف کو عدالتوں اور احتساب عدالتوں سے بچاکر ہی ہوسکتی ہے
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn