Qalamkar Website Header Image

مشرقی اقدار کی پاسدار عورت

انسان اپنی جبلت سے تسکین کا متلاشی ہوتا ہے اور تسکین پانے کے لیے اپنی تلاش اس انداز میں جاری رکھتا ہے، جیسے لق و دق صحرا میں ایک پیاسا آب کی تلاش میں در بدر بھٹکتا ہے۔ ہمارے مشرقی معاشرے میں شعراء اور فنکاروں نے عورت کو حتی الامکان رومانویت اور تصوریت کی تصویر میں ڈھالا ہے۔ مرد کی نظر میں عورت تصوری طور پر رومانویت اور جنسی تسکین حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔

عورت ایک ایسی مخلوق ہے، جو ذاتی لحاظ سے انسان بھی نہیں بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ یہ کنار بیکسی کا پتلا ہے۔ مشرق میں متصور عورت کو صرف مثالی طور پر دیکھا جاتا ہے۔تصور کیا جائے تو عورت کو حُسن اور زندگی سے مُستعار لیا گیا ہے۔ اس کی اہمیت مفروضاتی طور پر ہی مختص ہے۔ جس کو ہم اس نہج سے نہیں دیکھتے کہ وہ ہماری بہن ،بیٹی اور بیوی ہے، بلکہ صرف عینیت پسندی اور لذت حاصل کرنے کے لیے مختص ہے۔

عورت صرف اپنی شناسائی پر زندہ رہتی ہے۔ اب یہ اس کی فطری کمزوری سمجھا جائے یا اس کے نفس کا لالچ، کیونکہ خواتین کو اپنی جانب توجہ مبذول کروانا اچھا لگتا ہے۔ بعض جان بوجھ کر کرتی ہیں اور کچھ انجانے میں کرتی ہیں۔عورت اپنی ذات کو محور بنا کر اپنے ارد گرد کے کرداروں خصوصتاً مرد کی توجہ کی حاصل کرنے کی انہماک کرتی ہیں۔ اس معاملے میں یہ بڑی جلدی کا مظاہر کرتی ہیں، اپنی تعریف ان کو تصدیق شدہ اور شائستہ الفاظ میں چاہیئے ہوتی ہے، اور یہ ان کے ذہنی اعصاب کو فرحت بخشی ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  مملکتِ خُداداد میں عورت تحفظ کی طلب گار

مرد چاہے عورت کی کتنی ہی تعظیم کر لے مگر اس کی لڑائی کی ابتداء خواتین سے ہی ہوتی ہے۔ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ مرد کے لیے کوئی معقول گالی نہیں، تمام گالیوں کی ابتداء خواتین سے ہی ہوتی ہے۔ یہ بات انسان کو تشکیکیت کی حالت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ ہمارے انتشاری نظریات معاشرے کو انتشار کی جانب گامزن کر دیتے ہیں۔ یہ ایک ایسا پیچیدہ نظام ہے، جس میں ایک چھوٹی سی بھی تبدیلی لانا نہ جانے کس بڑے سانحے کا سبب بن سکتی ہے۔

عورت ایک ایسی مخلوق ہے جس کا مرد کے ساتھ تعلق قائم ہوتا ہے تو اس کی ذاتی حیثیت ماند پڑ جاتی ہے۔ اس کی شناخت مرد کے اندر گم ہوجاتی ہے۔ وہ مرد کو اپنا محافظ تصور کرتی ہے اور تحفظ کی امید میں زندگی بسر کرتی ہے۔ جبکہ منکوحہ عورت سے پیار سے جتایا جائے تو وہ گھبراہٹ محسوس کرتی ہے اور جب اس سے ذات بے اعتنائی برتیں تو یہ اظہار برہمی کرتی ہیں۔

عورت کو فرشتہ صفت سمجھنے میں مرد اور عورت کے درمیان کے فاصلے کا ہونا ہے۔ اس سے پہلے مردوں کے اذہان میں عورت کی صرف تصوری اور رومانوی شکل موجود ہوتی ہے۔ عورت کا مرد تعلق جڑتا ہے تو یہ تعریف ماند پڑجاتی ہے اور جذبات میں جبر اور تشدد پروان چڑھتے ہیں جس سے وہ عورت کو انسانیت کے درجے سے گرا دیتا ہے۔ جس بنا پر منفی نتائج مرتب ہوتے ہیں اور گھریلو تشدد ، عورت دشمنی ان جیسی صورتوں میں نکلتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  One is not born, but rather becomes, a woman- Quotes by Simon de Beauvoir

 

حالیہ بلاگ پوسٹس

منٹو بنام طارق جمیل

ڈئیر مولانا! امید ہے خیریت سے ہو ں گے۔ کافی دنوں سے سوچ رہا تھا خط لکھوں۔ خط لکھنے کی ایک وجہ تو حوروں کا اصرار تھا۔ کئی بار میرے

مزید پڑھیں »
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

سندھ کی صوفیانہ اساس پر مذہبی جنونیوں کی یلغار

پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کو بطور خاص یہ بات سمجھنا ہوگی کہ سندھ میں مذہبی تقدسات کے نام پر فتویٰ فتویٰ کھیلتے مذہبیوں کے سامنے ڈاکٹر عرفانہ ملاح نے

مزید پڑھیں »

کرونا اور جہالت کا مشترکہ حملہ

پاکستان اس وقت تاریخ کے نازک دور سے گذر رہا ہے۔ یہ جملہ ہم کئی دہائیوں سے سنتے آئے تھے لیکن ایسا واقعی ہوتا دیکھ پہلی بار رہے ہیں۔ کرونا

مزید پڑھیں »