8 مارچ خواتین کا عالمی دن، اس دن دنیا بھر میں عورتوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے. بلاشبہ خواتین نے ہر شعبہ مین قدم رکھ دیا ہے اور مردوں کے شانہ بشانہ ہر کام کر رہی ہیں، خواتین کے لئے دن منانے کا آغاز ہی کام کرنے والی خواتین کے حقوق سے جڑا ہوا ہے جب 1908ء میں نیویارک میں گارمنٹس فیکٹری میں کام کرنے والی عورتوں نے اپنے ساتھ روا رکھی جانے والی نا انصافی کے لیے آواز اٹھائی اور یہ احتجاج اتنا بڑھا اور مطالبات پورے ہونے پر 28 فروری کو خواتین کا دن منایا گیا اس کے اگلے سال ہی 8 مارچ 1909ء کو متفقہ طور پر خواتین کے دن کے نام سے منسوب کر دیا گیا. شروع میں یہ دن سوشلسٹ اور کیمونسٹ ممالک میں منایا جاتا تھا. آخر کار 1975ء میں اقوام متحدہ نے خواتین کے حقوق کی جدوجہد کو تسلیم کرتے ہوئے "8 مارچ ” کو” یوم خواتین ” قرار دیا.
1996 ءسے ہر سال اس دن کو ایک مخصوص نام سے موسوم کیا جانے لگا اس سال کا موضوع ہے ” پریس اینڈ پاور” یعنی دباؤ کے بغیر کسی بھی میدان میں تبدیلی لانا ممکن نہیں. ہمارے ملک پاکستان میں بھی یہ دن زور شور سے منایا جاتا ہے، سمینارز، مباحثے، مزاکرے، مختلف تنظیموں کے شوز اس کے بعد خاموشی. اس خاموشی کے پیچھے ایک طوفان چھپا ہے کیونکہ عورت کی فلاح اور بقا کے لئے وہ کام نہیں ہورہا جو ہونا چاہیئے، کہیں عورت کو باپ بھائی کا جرم چھپانے کے لیے کاری کیا جارہا ہے کہیں ونی اور کہیں غیرت کے نام پر قتل، کہیں پڑھی لکھی لڑکی کو رشتہ قبول نہ کرنے پر قتل، کہیں بھائی کے جرم میں بطور تاوان زیادتی کا نشانہ بنایا جارہا ہے، کہیں سر بازار برہنہ گھمایا جارہا ہے. اس پاکستان میں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں عورت کو ووٹ ڈالنے کا بھی حق نہیں یہ سیاست دان خواتین کے حقوق پر بات کرتے نہیں تھکتے لیکن جب اس طرف توجہ دلاؤ تو اس موضوع سے صرف نظر کردیتے.
عورت کو برابری کا درجہ دینے کی بات کرنے والے جب اپنے برابر کسی عورت کو کھڑا دیکھتے ہیں تو نفرت سے ایک قدم آگے بڑھ جاتے ہین کیونکہ ان سے برداشت ہی نہیں کہ عورت ان کے برابر کھڑی ہو، جب عورت اپنے حق کے لیے میدان عمل میں آتی ہے تو اس کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں. ایک ورکنگ ویمن ان تمام مشکلات سے اچھی طرح آگاہ ہے چاہے وہ گھر میں کام کرنے والی ماسی ہو یا ایک معزز عہدے پر کام کرنے والی آفیسر، اس عورت کو گندی نظروں اور چبھتے فحش جملوں کو برداشت کرنا ہوتا ہے اس سب کے باوجود عورت نے محنت شاقہ اور کوشش پیہم سے معاشرے میں سر اٹھا کر جینا سیکھ لیا ہے. آج خواتین میں یہ شعور بیدار ہوگیا ہے کہ انھیں ہر شعبے میں کام کرنا ہے اور اگر اپنے لئے حقوق حاصل کرنا ہے تو سیاست میں بھر پور حصہ لینا ہوگا یہی وجہ ہے کہ دس فیصد نمائندگی کو اب تیتیس فیصد نمائندگی میں کردیا گیا ہے، لیکن یہ کامیابی مکمل نہیں معاشرے میں اب بھی تفریق پائی جاتی ہے. عورت پہ تشدد کا بل تو منظور ہوگیا ہے لیکن تشدد کرنے والوں میں سے پانچ فیصد کو ہی سزا مل پاتی ہے ہزاروں خواتین خاموشی سے گھر کے اندر مرد کاتشدد برداشت کر رہی ہیں اور عزت کے خوف سے کسی سے ذکر بھی نہیں کرتیں، اس کے لئے سماجی تبدیلی اور قانون کی عمل داری ضروری ہے جس کی وجہ سے یہ طبقاتی فرق ختم ہو.
بچیوں کی تعلیم کے لیے کام کرنا ہوگا. اس سال کی تھیم کے مطابق ہمیں ہر سطح پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ بچیوں کو تعلیم دلائی جائے، تعلیم کی طاقت عورت کو معاشرے میں مضبوط مقام دلائے گی. ایک تعیلم یافتہ عورت ہی اپنے حقوق کی جنگ بہتر طریقے سے لڑسکے گی. بلاشبہ شہروں میں عورت ہر شعبے میں کام کر رہی ہے اور تعلیم بھی حاصل کر رہی ہے آج کی عورت اپنا حق پہچاننے لگی ہے لیکن اس علم کی روشنی ان جگہوں پر پہنچانا بھی ضروری ہے جہاں کسی ملالہ کو ملک سے باہر نہ جانا پڑے، کوئی عائشہ گلالئی اپنی عزت کی حفاظت کی دھائی نہ دے، کوئی بشیراں بازار میں برہنہ نہ گھمائی جائے، کوئی تانیہ وڈیرے کا رشتہ ٹھکرانے پر ماں باپ کے سامنے قتل نہ ہو، کسی پولیو ورکر کو بم سے نہ اڑایا جائے، کوئی زینب زیادتی کا شکار ہوکر قتل نہ ہو.
خواتین کے عالمی دن پر ہمیں عہد کرنا ہوگا کہ معاشرے میں عورت کوجینے کا حق دینا ہوگا، ہمارے مذہب نے اتنے حق دیئے ہیں ان حقوق کو ہی یہ لوگ مان لیں. خواتین کو اپنے استحصال کے خلاف ڈٹ جانا ہوگا تاکہ پھر کوئی انھیں میلی نظر سے نہ دیکھ سکے. ہم اپنی منزل پر نہیں پہنچے، ہمارا سفر جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہنا چاہیئے جب تک معاشرے میں پائی جانے والی امتیازی سوچ کا خاتمہ نہ ہوجائے.
تمام خواتین کو خواتین کا عالمی دن مبارک ہو اور خواتین کو عزت کا مقام ملے اور علامہ اقبال کا شعر خواتین کی سچی تصویر بن جائے
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
فری لانس کہانی نگار، کالم نگار اور بلاگر ہیں۔ ہفت روزہ، روزنامہ اور بلاگنگ ویب سائٹس کے لئے لکھتی ہیں۔ بلاگ قلم کار سے لکھنے شروع کئے۔ کہتی ہیں کتابیں تو بچپن سے پڑھتے آ رہے ہیں اب تو دہرا رہے ہیں۔ ان کا قلم خواتین کے حقوق اور صنفی امتیاز کے خلاف شمشیر بے نیام ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn