Qalamkar Website Header Image

نابینا افراد کا کیس, اتنا بھی ظلم اچھا نہیں

خادم اعلی کی حکومت کے لئے بڑے سے بڑے مسئلے کا حل کبھی مشکل نہیں رہا۔ میٹرو بس بنانے کی ٹھانی تو ایک نہیں کئی رکاوٹیں اس بس کے روٹ کی تعمیر اور منصوبے کی تکمیل میں حرف غلط ثابت ہوئی۔ اربوں روپے کا پروجیکٹ دنوں میں بن گیا۔ عدالتوں میں حکم امتناعی لینے والے دیکھتے رہ گئے۔ یہی صورت حال ہمیں اورنج لائن منصوبے میں بھی نظر آتی ہے. پنجاب کے یہ دونوں منصوبے چار سو ارب روپے سے زائد کے ہیں لیکن اتنی خطیر رقم کے انتظام اور منصوبوں کی تکمیل میں نہ ایک پیسے کی کمی آئی اور نہ ہی ایک لمحہ کی تاخیر کی گئی نتیجہ یہ یے آج میٹرو بس لاہور، ملتان اور اسلام آباد میں نہ صرف اربوں روپے کی سالانہ سبسڈی کے ساتھ تینوں شہروں میں فراٹے بھرتی نظر آتی بلکہ اب تو لاہور میں اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ تکمیل کے آخری مرحلے میں ہے. یہی صورت حال ہمیں لاہورسمیت پورے پنجاب میں پلوں، سڑکوں اور دیگر تعمیراتی منصوبوں میں آتی ہے.

ایسے میں کیا یہ صورت حال حیران کن نہیں کہ اسی خادم اعلی کے صوبے میں محض 230 اندھے گزشتہ چار سال سے شہر لاہور کی سڑکوں پر نوکری کے حصول کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں. کبھی یہ پنجاب اسمبلی کے باہر دھرنا دیتے ہیں تو کبھی پنجاب اسمبلی کی سڑھیوں پر کئی دن تک ڈیرے ڈالے رہتے ہیں. چار سال قبل 2011 میں اس وقت پنجاب حکومت کے ترجمان ذعیم حسین قادری اور صوبائی وزیر صاحبزادہ ہارون سلطان کی کاوش سے انہیں ایوان وزیراعلی 180 ایچ ماڈل ٹائون تک رسائی ملی اور یہ نوید سنائی گئی کہ خادم اعلی نے کمال مہربانی سے ان کے مطالبات کو جائز تسلیم کرتے ہوئے انہیں تین فیصد معذور کوٹہ کے تحت تعلیمی قابلیت کے مطابق نوکریاں دینے کا اعلان اور وعدہ کیا ہے . مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے کے محاورے کو وزیراعلی نے لگتا ہے سچ ثابت کرنے کی تھانی ہوئی ہے اسی لئے تو کچھ عرصہ بعد ہی ہمیں پھر یہی نابینا افراد کبھی پنجاب اسمبلی کے باہر مال روڈ۔ کبھی لاہور پریس کلب. کبھی میٹرو بس کے روٹ پر کبھی کلب چوک مال روڈ اور اب ایوان وزیراعلی ماڈل ٹاؤن میں احتجاج کرتے نظر آتے ہیں. ان نابینا افراد کے اب تک کے جتنے بھی احتجاجی مظاہروں کی کوریج کا موقع ملا ان سب میں ایک بات پر میں خود اور تمام کوریج کرنے والے صحافی متفق نظر آئے کہ یہ سب نابینا افراد پڑھے لکھے اور اعلی ذہنی صلاحیتوں سے مالامال ہیں۔ ان میں کئی ایم اے، ایم فل اور کئی بی ایس آئنر کر رہے ہیں۔ یہ بڑے دکھ کی بات یے کہ پنجاب جس کا بجٹ 18سو ارب روپے سے زائد کا ہے اس صوبے کے خادم اعلی کے پاس ان 230 نابینا افراد کے لئے نوکری نہیں حالانکہ انہیں اگر 50ہزار روپے ماہانہ بھی دیئے جائیں تو ان کا سالانہ بجٹ 15 کروڑ روپے سے زیادہ نہیں بنتا۔ یہ صورتحال اس حوالے سے اور زیادہ تکلف دہ ہے کے خادم اعلی نے گزشتہ سال بھی ایوان وزیراعلی کے لئے مختص بجٹ میں کروڑوں روپے کا اضافہ کیا اور اسے ضمنی بجٹ کا حصہ بنایا مگر جب کبھی ان کے سامنے ان نابینا افراد کا احتجاج اور مطالبہ سامنے آیا تو ناجانے کیوں خادم اعلی کا دل نرم نہ ہوا۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ نابینا افراد کا مسئلہ ہو یا عام آدمی کی صحت اور ان کے بچوں کی تعلیم کا ایشو ہو، یہ سب کچھ خادم اعلی کی ترجیحات سے بہت دور کےمعاملات ہیں۔ آج اگر میڑو بس اور اورنج لائن ان کی ترجیع ہیں تو یہ تیزی سے بن بھی رہے ہیں ورنہ جب پنجاب کے یہی حکمران کہتے تھے کہ بسیں چلانا ریاست کا کام نہیں ہے اسی لئے انہوں نے اپنے پہلے ادوار حکومت میں جی ٹی ایس اور پنجاب اربن ٹرانسپورٹ جیسے اداروں کو سفید ہاتھی قرار دے کر انہیں نجی شبعے کے حوالے کیا اور ان اداروں کی اربوں روپے کی پراپرٹی اوربس ڈپوؤں کو ان بس کمپنیوں کو کوڑیوں کے بھاؤ دے کر ریاست کے وسائل سے انہیں نوازا مگر پھر جب انہیں میگا پروجیکٹس کے فیوض برکات کا علم ہوا تو پھر اسی خادم اعلی نے اپنی ماضی کی پالیسی کے برعکس اربوں روپے کے یہ میگا ٹرانسپورٹ کے منصوبے شروع کیے.

یہ بھی پڑھئے:  پانچ فروری یومِ حقوق گلگت بلتستان

اس تمام صورت حال میں خادم اعلی سے صرف یہ کہنا یے کہ یہ نابینا افراد ایک بار پھر گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے پنجاب اسمبلی، لاہور پریس کلب، میٹرو بس اور کلب چوک مال روڈ پر احتجاج کے بعد ایک بار پھر آپ کے گھر کی دہلیز پر ایک نوکری کے اس حق کے لئے پہنچے ہیں جس کا حق اپ کے صوبے کا قانون انہیں کوٹہ کی صورت میں دیتا ہے۔ انہیں ان کے اس حق سے محروم کرنا اور الٹا انہیں پولیس کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنانا کسی طور پر درست نہیں بلکہ ظلم ہے اور بدقسمتی سے یہ ظلم آپ کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے. کل کو جب آپ اس ظلم کی پکڑ میں آئے تو پھر نہ کہے گا کہ ہمیں تو پتہ نہیں چلا جیسا کہ آپ یہ بہانہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں تراشتے رہے ہیں ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں.

حالیہ بلاگ پوسٹس