Qalamkar Website Header Image

زرداری زرداری ہے اور سب پہ بھاری ہے

سینیٹ انتخابات نے ثابت کیا زرداری زرداری ہے اور سب پہ بھاری ہے. ہزاروں سازشوں ،کوششوں کے باوجود سینیٹ کے انتخابات منعقد ہوگئے۔ سازشیوں کی ہرممکن کوشش تھی کہ سینیٹ کے انتخابات نہ ہوں اور جمہوریت کی ٹرین پٹری سے اتر جائے۔بار بار دعوے کئے گئے کہ سینیٹ کے انتخابات کا امکان ممکن نہیں بلکہ خود کو پاکستانی سیاست کے یہ بھی ” کنگ میکرز” کہلانے والوں نے تو یہاں تک پیشن گوئی کردی تھی کہ پاکستان میں عام انتخابات کا منعقد ہونا دکھائی نہیں دیتا۔ اس حوالے سے حالات ایسے بھی بنا دئیے گئے کہ لگنے لگا کہ ٹیکنوکریٹس یا بنگلہ دیش ماڈل یعنی ججز کی غیر معینہ مدت کے لیے حکومت لائی جا رہی ہے۔

پاکستان کو جمہوریت سے محروم کرنے کی جدوجہد تو زرداری حکومت کے دوران ہی شروع کردی گئی تھی لیکن زرداری صاحب کی دانش و فہم سے اس جدوجہد کو جام کردیا اور اپنی مدت پوری کرکے جمہوریت اور جمہوری اداروں کو مضبوط کیا۔ اور ایک سول حکومت کا سول حکومت کو اقتدار کی منتقلی سے ایک نیا باب رقم کیا۔ آصف علی زرداری نے سیاست میں متحرک ہوتے کہا تھا کہ اب سیاست کر کے دکھاؤں گا۔ انہوں نے دعوی کیا کہ وہ نواز لیگ کی حکومت کو گرانے کا ہنرجانتے ہیں ،پھر ایک دن بلوچستان کی صوبائی حکومت کے خلاف اسمبلی اور نواز لیگ کے ارکان اپنے ہی وزیر اعلی کے خلاف میدان میں نکل کھڑے ہوئے۔ ثناء اللہ زہری کو عدم اعتماد سے بچنے کے لیے اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔

اس سارے کھیل کے پس پردہ آصف علی زرداری کا نام لیا جانے لگا۔ پھر سارے عالم نے دیکھا کہ بلوچستان کی نومنتخب حکومت وزیر اعلی سندھ کی دعوت میں شریک ہوئی۔اب کہا جاتا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات میں تاریخ کی بدترین ہارس ٹریڈنگ ہوئی، ارکان کو خریدنے کے لیے روپیہ پانی کی طرح بہا گیا ۔ اگر ارکان نہ بکنا چاہیں تو کوئی مائی کا لعل انہیں نہیں خرید سکتا۔سوال کیا جاتا ہے کہ خیبر پختونخواہ اسمبلی میں پیپلز پارٹی نے کیسے دو نشستیں حاصل کرلیں؟ پیپلز پارٹی نے یہ نشستیں کروڑوں خرچ کرکے حاصل کی ہیں۔
سوال اٹھتا ہے کہ اگر پی پی پی پی نے خیبر پختون خواہ اسمبلی سے ہارس ٹریدنگ کرکے دو نشستیں جیتی ہیں تو پھر پنجاب اسمبلی سے پاکستان تحریک انصاف کے چوہدری سرور نے اپنی نشست کیسے جیتی؟ پیپلز پارٹی کے مخالفین تحریک انصاف والے پیپلز پارٹی کی نشستوں کو ہارس ٹریڈنگ سے تعبیر کرتے ہیں مگر اپنی جیت کو کہتے ہیں کہ ارکان پنجاب اسمبلی نے اپنے ضمیر کے مطابق حق رائے دہی استعمال کیا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  حضرت عائشہؓ کے خلاف گستاخی ہندو توا کی سازش

ایم کیو ایم بھی چارپانچ ٹکڑوں میں بٹنے کے باوجود کہتی ہے کہ اس کے آٹھ دس ارکان نے اپنے ووٹ فروخت کئے ہیں۔ جبکہ ایم کیو ایم (فاروق ستار) اپنی اداؤں پر غور کرنے کو تیار و آمادہ نہیں۔اتنے سارے گروپس میں تقسیم ہوتے دیکھ کر درد دل رکھنے والے ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی نے مناسب خیال کیا کہ ووٹ ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ استعمال کرلیا جائے۔ پیپلز پارٹی والے نعرہ لگاتے تھے کہ "ایک زرداری سب پے بھاری” مجھ سمیت بہت سارے لوگ سوچتے تھے کہ پیپلز پارٹی جو بقول ناقدین اپنے آخری سانس لے رہی ہے۔آصف زرادری کیسے پنجاب میں حکومت بنانے کے اپنے دعوی کو سچ کردکھائیں گے؟ابھی تک تو الیکٹرانک میڈیا کہہ رہا ہے کہ آصف علی زرادری نے خیبر پختونخواہ اور سندھ اسمبلی میں حساب کتاب کے برعکس نشستیں لے کرسب کو حیران کردیا ہے۔

ٹی وی ٹاک شوز میں تمام اینکرز اور مہمان بڑے دھڑلے سے کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ 25 25 کروڑ میں ارکان خریدے گئے ہیں لیکن کوئی ایک شخصیت بھی اس ہارس ٹریڈنگ کا ثبوت پیش نہیں کررہی۔ جس سے ہارس ٹریڈنگ کے دعوؤں اور باتوں پر سوالیہ نشان کھڑے ہورہے ہیں۔ الزام لگانا تو جمہوریت دشمنوں کا مقبول ، محبوب اور دیرینہ مشغلہ ہے۔ سینیٹ انتخابات کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد اگلے مرحلے پر بحث ہورہی ہے، چیئرمین سینٹ کون ہوگا۔ آج کا مقبول ترین موضوع یہی ہے۔ جوڑتوڑ اور ارکان سینیٹ کی خریداری کی خبریں بھی زبان زدعام ہیں۔ سیاسی جوڑ توڑ کرنا ہی تو سیاست ہے۔سیاستدان سیاست نہیں کھیلیں گے تو کیا کھیلیں گے؟ ہر پارٹی کا حق ہے کہ وہ اپنا سینیٹ کا چیئرمین منتخب کروائے۔

یہ بھی پڑھئے:  میرے دیس کی کہانی ' سیاست یا کاروبار؟

کہا جا رہا ہے کہ نواز لیگ پرویز رشید اور مشاہد حسین سید میں سے کسی ایک کو سینیٹ کا چیئرمین منتخب کرانے کی کوشش کرے گی جبکہ پیپلز پارٹی کے امیدوار کے حوالے سے رحمان ملک، شیری رحمان،اور فرحت اللہ بابر کے نام لئے جا رہے ہیں، اطلاعات یہ بھی آ رہی ہیں کہ مسلم لیگ نواز نے پیپلز پارٹی کو پیش کش کی ہے کہ وہ رضا ربانی کو متفقہ چیئرمین سینٹ بنانے کے لیے تیار ہے۔ پیپلز پارٹی کو اے این پی،مولانا فضل الرحمان اور عمران خاں کی حمایت ملنے کی بھی باتیں ہورہی ہیں۔ اگر عمران خاں نے پیپلز پارٹی سے ہاتھ نہ ملایا تو پیپلز پارٹی نواز لیگ کی طرف دست تعاون بڑھا سکتی ہے اگر ایسا ہوا تو پھر نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے سابقہ حلیفوں کی موجودگی میں دیگر سے تعاون کی ضرورت نہ رہے گی۔گیند اب پیپلز پارٹی کی کورٹ میں ہے۔
پھر خیال ہے کہ بلوچستان اور فاٹا کے نومنتخب سینیٹرز پیپلز پارٹی سے بغل گیر ہوں گے اور چیئرمین سینیٹ اس نئے اتحاد کا منتخب ہوگا جس میں پیپلز پارٹی، بلوچستان ،فاٹا ،مولانا فضل الرحمان اور اے این پی شامل ہونگی۔ باقی سیاست اور کرکٹ میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ پاکستان کی سیاست میں سب کچھ ہوسکتاہے۔جو بھی سینیٹ حکومت حاصل کرے ہمیں اس سے کیا غرض لیکن ایک بات ضرور کہوں گا کہ آصف علی زرداری نے "ایک زرداری سب پر بھاری” کے نعرے کو سچ ثابت کردکھایا ہے سینیٹ انتخابات میں سب کو حیرانی میں مبتلا دیکھ کر دل کرتا ہے کہ میں بھی نعرہ بلند کروں کہ زرداری زرداری ہے اور سب پہ بھاری ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس