Qalamkar Website Header Image

پتلی گلی سے پہلے

کمال فنکاری نہیں کہ حکومتی جماعت کی بلاشرکت غیرے قیادت کے باوجود میاں نواز شریف کا مجھے کیوں نکالا کا مظلومانہ اور احتجاجی  بیانیہ سیاست کی جی ٹی روڈ پر فراٹے بھر رہا ہے ۔ اُن کے جلسوں کے حجم ہوں یا چکوال اور لودھراں کے ضمنی انتخابات مجھے کیوں نکالا بقول اُن کے اپنے سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ لیکن اس سے بڑا کمال میاں مخالف کیمپ کا ہے کہ نہ تو مجھے کیوں نکالا کا کوئی موثر جواب ہے اور نہ ہی کوئی اس کے مقابلے کا بیانیہ۔ تحریک انصاف کا المیہ تو یہ ہے کہ گذشتہ پانچ سال وہ گو نواز گو کے یک نکاتی ایجنڈے پر سیاست کرتی رہی اور نااہلی کے فیصلے کے ساتھ وہ یک نکاتی ایجنڈا اپنے قدرتی انجام کو پہنچ گیا اُس کے بعد سے عمران خان اور اُس کی جماعت کسی متبادل بیان کی تلاش میں تاحال ناکام صرف نیب عدالت سے میاں نواز شریف کے مقدمات کے فیصلوں کی منتظر ہاتھ پر ہاتھ دھرے محوِ فکرِ فردا ہے ۔

اُدھر پیپلزپارٹی کبھی کبھی اپنی کچھار سے نکل کر تخت لاہور کے خلاف ایک آدھ دھاڑ ہی کو کافی جان رہی ہے۔پاکستان میں پیپلزپارٹی ہی تھی جس نے انتخابی محاذ سے سیاسی اشرافیہ کی چھٹی کروائی تھی بڑے بڑے الیکٹیبلز ۷۰ ء کی بھٹو عوامی طغیانی میں خس و خاشاک ہوئے لیکن ۷۷ء میں اُس سارے عمل پر پانی پھیرتے ہوئے وہی الیکٹیبلز ترنگے کے سائے میں اپنی سیاست بحال کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔ یہ تو پیپلزپارٹی کی وسیع البنیاد ساخت تھی کہ جس نے اُن الیکٹیبلز کی جانب سے ریورس گئیر کے باوجود گیارہ سالہ ضیاشاہی کو کامیابی سے جھیلنے میں مدد کی لیکن اُس بحران میں کامیابی کے باوجود پارٹی نے اپنے ڈہانچے کی وسعت بحال کرنے کے بجائے وہی ۷۷ ء کی الیکٹیبلز پر انحصار کی پالیسی پر ہی توجہ مرکوز رکھی ۔میری ادنیٰ رائے میں پارٹی اب بھی اسی جستجو میں ہے ۔

یہ بھی پڑھئے:  جنت کے جوانوں کے سردار - امام حسینؑ

جبکہ میاں نواز شریف جملہ الیکٹیبلز سمیت اینٹی اسٹیبلیشمنٹ سیاست کی اداکاری میں انتہائی کامیاب ہیں۔ مجھے کیوں نکالا مہم کے آغاز میں انہوں نے جملہ ریاستی اداروں کو اپنے نشانے پر رکھا لیکن بعد ازاں انہیں سمجھ آئی یا سمجھایا گیا کہ بیک وقت بہت سے محاذوں کے بجائے آپا عظمیٰ کی طرف رُخ مرکوز کر کے بھی جملہ مقاصد حاصل کئے جاسکتے ہیں ۔بصورت دیگر کوئی طاقتور ادارہ جوابی حملہ بھی کر سکتا ہے ۔بات کو مثالوں سے واضح کرنے کے لئے شہراقتدار میں دھرنے کی شکل کھینچی گئی اور پھر اُسی شکل کو دیگر شہروں میں الیکٹیبلز کے گھروں تک متشددانہ وسعت دے کر یہ سمجھایا گیا کہ ہمارے طرف سے رُخ نہ پلٹانے کی صورت میں جلسہ جلوس تو ایک طرف اپنے گھروں میں قیام بھی مشکل ہو سکتا ہے۔میاں صاحب کا یہ بھی کمال ہے انہیں بات جلدی سمجھ آجاتی ہے چنانچہ انہوں نے اپنی ساری جارحیت آپا عظمیٰ کی طرف مرکوز کر دی اور چھوٹے میاں صاحب کو یہ حق بھی دے دیا کہ وہ اُن کی جارحانہ پالیسیوں سے کھل کر اختلاف بھی کر یں تاکہ حکومتی جماعت کی قیادت اور احتجاجی سیاست دونوں جاتی امرا میں باہم شیر و شکر یکجا رہیں۔

ہمارے ہاں ریاست میں نہ تو اتنی سکت ہے کہ وہ شہریوں کی جملہ توقعات پر پورا اُترے اور نہ ہی ریاستی ذمہ داران شہریوں کی توقعات پر پورا اُتر کر اُن کی عادات بگاڑ کر اپنی حالت اور حیثیت پر کسی سمجھوتے کے روادار ہوتے ہیں ۔چنانچہ شہریوں اور ریاست میں تعلق عموماٌ ناخوشگواریت کا شکار رہتا ہے اس پس منظر میں جو کوئی بھی کسی بھی غرض اور نیت سے ریاستی اداروں کو للکارے شہریوں کا دلبر بن جاتا ہے ۔شہری تجزیوں کی گہرائی پر غور نہیں کرتے بس ڈاکو ہو یا لٹیرا جو کوئی بھی کسی بھی مطلق العنان ریاستی ادار وں کو للکارے وہ اسے ہیرو گردانتے ہیں ۔لیکن حیرت تو اس بات پر ہے کہ عوام یہ بھی یاد نہیں رکھ پارہے کہ ابھی ماضی قریب میں میاں صاحب مطلق العنانیت کو للکارتے ہوئے موقع ملتے ہی پتلی گلی سے نکل گئے تھے ۔

یہ بھی پڑھئے:  مزاح کی آڑ میں طنز

کہیں ایسا تو نہیں کہ اس دفعہ بھی میاں صاحب کی للکار کا مقصد ایسی ہی کسی پتلی گلی کی جستجو ہو ۔ عظمیٰ کی طرف رُخ کرکے سسی کی طرح بھائیوں کے نام پر یاروں کو رونے کی وجہ اُن یاروں سے پتلی گلی کا ہی تقاضا ہو۔ویسے تو ایک جلسے میں انہوں نے عوام سے ایک اور بھاری مینڈیٹ کا تقاضا بھی کیا تھا جس کے حجم میں وہ اپنی نااہلی کامیابی سے تحلیل کر سکیں لیکن مجھے نہیں لگتا کہ جن یاروں نے میاں صاحب کو ان حالوں میں پہنچایا ہے انہوں نے واپسی کے لئے کوئی پتلی گلی بھی چھوڑی ہو ۔شاید واپسی سے بڑا سوال جانشینی کا ہے کہ میاں صاحب پتلی گلی اختیار کرنے سے پہلے اپنی دختر کا اخترنیک ہونے کی ضمانت چاہتے ہیں ۔

حالیہ بلاگ پوسٹس