Qalamkar Website Header Image

اس ہفتے کی فلم لکشمی

"ریپ کیا ہوتا ہے، میں سمجھا نہیں سکتی لیکن میں جانتی ہوں یہ کیا ہے ـ جس کے ساتھ ہوتا ہے وہ جانتا ہے”ـ فلموں کو عموماً دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے ، اچھی یا بری مگر ایک تیسری قسم بھی ہوتی ہے "ناقابلِ برداشت” ـ 2014 کی ہندی فلم "لکشمی” تیسری قسم کی فلم ہے ـ ہم جانتے ہیں کمسن لڑکیاں اغوا کی جاتی ہیں، بیچی جاتی ہیں، ان کا ریپ ہوتا ہے لیکن ہم یہ سننا اور دیکھنا نہیں چاہتے ـ کبھی کبھار اگر ایسا کوئی واقعہ ننگی حقیقت بن کر ہمارے سامنے "زبردستی” آ بھی جائے ہم چند لمحے افسوس کرکے اسے بھولنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ـ پدرشاہی اور ذاتی ملکیت پر مبنی سماج میں چونکہ عورت ایک قابلِ انتقال اور قابلِ خرید و فروخت جنس ہے اس لئے بساں اوقات عورت کے جنسی استحصال کی کہانیوں سے جنسی لذت کے سامان بھی ڈھونڈھے جاتے ہیں ـ قصور کی زینب کے حالیہ سانحے پر سوشل میڈیا کے ایک حصے میں اس سانحے سے جنسی لذت کوشی کا مظاہرہ راقم کے ذاتی مشاہدے کا حصہ ہے ـ

"لکشمی” عورت نامی "شے” کے استحصال کی بھیانک اور کربناک داستان ہے ـ عورت، جو مردانہ سماج میں صرف ایک "چھید” ہے ـ وہ بار بار "چھید” دھوتی ہے، بار بار تشدد کا نشانہ بنتی ہے ـ اسے ہر وقت، ہر حال میں گوشت کے مغرور مردانہ لوتھڑوں کو "چھید” فراہم کرنے کی جبری مشقت سے گزرنا پڑتا ہے ـ معصومیت کو روندنا پڑتا ہے ـ یہ کہانی نہیں، فکشن نہیں، خواب و خیال نہیں پدرسری معاشرے کی وہ ٹھوس حقیقت ہے جسے بے شرمی و ڈھٹائی سے مرد جھیل جاتے ہیں ـ

لکشمی (مونالی ٹھاکر) ایک چودہ سال کی بچی ہے جسے اس کا شرابی باپ ایک معزز عورت کے ہاتھ بیچ دیتا ہے ـ عورت اسے ایک اور عزت دار مرد رام ریڈی (ستیش کوشک) کو تھما کر منافع کھرے کرتی ہے ـ رام ریڈی، ایک موٹا اور عمر رسیدہ دولت مند جنسی درندہ ، وہ پہلے اسے خود مسلتا ہے پھر اپنے چھوٹے بھائی چِنّا ریڈی (ناگیش کنکور) کی زیرِ نگرانی قائم "گوشت کی دوکان” پر لٹا دیتا ہے ـ یہاں سے ذلتوں کے کیچڑ سے نکلنے کی جدوجہد شروع ہوتی ہے ـ جدوجہد پھولوں کی سیج نہیں خار دار راستہ ہے، آبلہ پا لکشمی، معصوم و کمسن لکشمی، ہر مرد کو جنسی عذاب سمجھنے والی بھولی بھالی لڑکی خار دار راستوں پر آبلہ پا چلتی ہےـ

یہ بھی پڑھئے:  فلم "وراثت" مروجہ فیشن سے مختلف دیہاتی سماج کی حقیقی کہانی

ایک موقع پر لکشمی نفسیاتی لحاظ سے توڑ پھوڑ کا شکار ہوکر سعادت حسن منٹو کے افسانے "کھول دو” کے اختتام کی یاد دلادیتی ہے ـ وہ مردوں سے ڈرتی ہے مگر ان کا مقابلہ کرنے کی ہمت بھی رکھتی ہے. فلم انسانی سماج کا خاکہ ہے ـ ایک طرف اکثریتی خباثت ہے تو دوسری طرف اقلیتی لطف و کرم کے مثبت انسانی جذبات کا اظہار بھی ـ جیوتی (شیفالی شاہ) گوشت کی دوکان کی "میڈم” ہے مگر وہ ماں بھی ہے ـ ماں بچی کو بچاتے بچاتے خود کو قربان کردیتی ہے ـ اسی طرح سورنا (آشا سینی) بظاہر سکہ بند "رنڈی” مگر در حقیقت ایک پاک روح ـ بقول فراز : "ڈھونڈھ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں

تامل ہدایت کار ناگیش کنکور (اس فلم میں چِنّا ریڈی کا کردار) نے 2005 کو اپنی فلم "اقبال” کی ریلیز پر کہا تھا "اب وقت آگیا ہے ہم ایک پھر ساٹھ کی دہائی کو تلاش کریں جب فلم محض انٹرٹینمنٹ نہ تھی” ـ ان کی یہ فلم بھی انٹرٹینمنٹ سے دور سماجی حقیقت ہے ـ ناگیش کنکور نے لکشمی کی بائیو گرافی کو فلمی روپ دینے میں اپنی تمام صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے ـ انہوں نے سادہ اسکرین پلے کو زاویے بدل بدل کر معنی خیز بنادیا ہے ـ وہ قبل ازیں "مقبول” ، "ڈور” اور "دھنک” میں بھی یہ کارنامہ دکھا چکے ہیں ـ

یہ بھی پڑھئے:  سکندر - راجہ پورس اور سکندر کے درمیان رزم آرائی کی شاندار داستان

فلم کی سینما ٹو گرافی اچھی ہے مگر ایڈیٹنگ کا معیار بہتر نہیں خاص طور پر عدالت کے سیکوینسز میں ایڈیٹنگ کی خامیاں ذیادہ واضح نظر آتی ہیں. اداکاری کا شعبہ ملا جلا ہے ـ بعض کم اہم اداکاروں بالخصوص وکیل کے کردار میں رام کپور کا کردار متاثر نہیں کرتا ـ کمسن مونالی ٹھاکر کی اداکاری کم عمری کے باوجود پختہ اور متاثر کن ہے ـ شیفالی شاہ ، آشا سینی اور ستیش کوشک کی اداکاری بھی اچھی رہی ـ ناگیش کنکور نے ایک بددماغ نوجوان کے کردار کو نبھانے کی کوشش تو بہت کی ہے، ان کی یہ کوشش نظر بھی آتی ہے مگر ایسا لگتا جیسے وہ خود پر بہت ذیادہ بوجھ ڈال رہے ہیں ـ ان کی اداکاری کا پھیکا پن بہت کھلتا ہے ـ

مجموعی طور پر "لکشمی” ایک بہترین فلم ہے ـ ایسی فلمیں 80 کی دہائی کی متوازی فلموں کی یاد دلاتی ہیں جب آرٹ اور سماج کو ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم سمجھا جاتا تھا. فلم کے بولڈ مناظر اور غیر اخلاقی جملے شاید اہلخانہ کے ساتھ دیکھتے ہوئے بے چین کریں ـ روایتی فلم بینوں کو اس معاملے میں اجتناب کا مشورہ دوں گا.

حالیہ بلاگ پوسٹس

Shah Rukh Khan Films Poster DDLJ Bazigar Jawan

شاہ رخ خان: ناکامیاں، غلط فیصلے اور تین پراسرار سال

سال 1993 شاہ رخ خان کے کیریر کا اہم ترین سال تھا ۔ دلی کے لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے اس کم رو، گندمی رنگت اور عجیب و

مزید پڑھیں »

ارطغرل غازی – ترک ڈرامہ – پہلا سیزن

”کیا ڈرامہ لگا رکھا ہے؟“ امید ہے کہ اس فقرے کا مطلب سمجھتے ہوں گے۔ وہ کیا ہے کہ فلمیں یا ڈرامے مکمل حقیقت نہیں ہوتے۔ ڈرامہ تو پھر ڈرامہ

مزید پڑھیں »

شوریہ – کورٹ مارشل کی ایک انوکھی کہانی

ایک کیپٹن کے کورٹ مارشل سے شروع ہونے والی کہانی جو بالآخر ایک بریگیڈیئر کے کورٹ مارشل شروع ہونے پر ختم ہوتی ہے۔ کیپٹن جاوید خان پلوامہ ڈسٹرکٹ کے ایک

مزید پڑھیں »