Qalamkar Website Header Image

سورج پہ کمند

پاکستان میں بائیں بازو کی تاریخ کو ایک مربوط انداز میں اگر کوئی شخص پڑھنے کا خواہش مند ہو تو اس کے سامنے سب سے بڑی مشکل اس موضوع بارے ایک مربوط کرانیکل اسٹڈی کی تلاش ہوتا ہے۔ اس موضوع پہ آج سے دس بیس سال پہلے تو مواد اکٹھا ملنا بہت مشکل ہوجاتا تھا۔ پھر بائیں بازو کی تاریخ کو جمع کرنے کا شعور آہستہ آہستہ بڑھنے لگا۔ اس حوالے سے سب سے مربوط کوشش احمد سلیم نے ایک آرکائیوز قائم کر کے اور چیزوں کو اکٹھا کر کے کی۔

انہوں نے بنگلہ زبان کی تحریک پہ تحریروں کو جمع کیا، سبھاش چندر بوس کے ساتھی کی داستان شائع کی، پاکستان میں ٹوٹتی بنتی اسمبلیوں کی کہانی، روزنامہ آفاق ڈھاکہ میں تفضل مانک میاں کے لکھے اداریوں کا انتخاب اور کئی دوسری کتابیں۔ ایسے ہی کافی سارا مواد پاکستان کی سیاسی تاريخ کے نام سے چودہ جلدوں میں زاہد چوہدری مرحوم، حسن جعفر زیدی اور ان کی ٹیم نے مرتب کر کے شائع کیا۔ پاکستان اسٹڈیز سنٹر کراچی نے بھی بائیں بازو کی تاریخ پہ کچھ اہم کتابیں شائع کیں جن میں ڈاکٹر فیروز احمد کے پاکستان فورم میں لکھے مضامین اور اداریوں کا مجموعہ، دادا امیر حیدر پہ حسن گردیزی کی دو جلدیں، بی ایم کٹی کی یادداشتیں، غوث بخش بزنجو پہ لکھی کتب۔ بلوچستان میں بائیں بازو کی تاریخ سے جڑی شخصیات پہ ڈاکٹر شاہ محمدی مری "عشاق کے قافلے” کے عنوان سے چھپنے والی کتابیں بھی اس ہی مد میں شمار کی جا سکتی ہیں۔

لیکن ان سب کتابوں کے چھپنے کے باوجود پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان سمیت بائیں بازو کی مختلف سیاسی جماعتوں کی کرانیکل ہسٹری اور پھر ان سیاسی جماعتوں کے زیر اثر پاکستان کے اندر کسانوں، طالب علموں اور محنت کشوں کی تحریکوں اور تنظیموں پہ اب تک ایک مربوط اور باقاعدہ تاریخ کو کہیں بھی لکھا نہیں گیا۔جس سے ایک تشنگی محسوس ہوتی رہی ہے۔ پاکستان میں بائیں بازو کی طلباء تحریک اور اس کی سب سے بڑی جدوجہد کی علامت ڈی ایس ایف اور این ایس ایف بارے ہمیں پروفیسر عزیز احمد کی کتاب ” پاکستان میں طلباء تحریک” اور ایسے این ایس ایف کے ایک کلیدی رہنماء سید اختر احتشام کی آب بیتی کتابی شکل میں پہلی بار مربوط انداز میں کچھ مواد پڑھنے کو ملتا ہے۔

اور اب پتا چلا ہے کہ ریاض شیخ پاکستان میں ترقی پسند طلباء سیاست پہ ایک کتاب لکھ رہے ہیں جو ابھی تک چھپی نہیں ہے۔ مگر ان سب مواد کے موجود ہونے کے باوجود یا ڈاکٹر رشید حسن پہ حال ہی میں آنے والی کتاب میں کچھ تفصیل آنے کے باوجود ایک بڑی تشنگی محسوس ہوتی رہی تھی کہ پاکستان کی طلباء سیاست خاص طور پہ ڈی ایس ایف اور این ایس ایف کی تشکیل سے زوال تک کی کرانیکل تاریخ اور اس دوران تاریخ ساز واقعات کا سیاق و سباق پوری طرح سے پتا چلے اور جس سے یہ اندازا لگانے میں مدد ملے کہ اس قدر تاریخی کامیابیوں کو اپنے دامن میں سمیٹنے والی پاکستان میں طلباء تحریک میں ترقی پسند سیاست ایسے انجام سے کیوں دوچار ہوئی۔

یہ بھی پڑھئے:  فصیلِ ضبط - پیش لفظ - فرح رضوی

میں جب طالب علمی کے دور میں کالج میں پہنچا تو این ایس ایف ” آنکھوں میں پھر رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول-عبرت سرائے دھر ہے اور ہم ہیں دوستوں کا مصداق” بلکہ پدرم سلطان بود کا مصداق بنی ہوئی تھی۔ سیاست پہ قبضہ مافیا، کلاشنکوف کلچر اور غنڈا گردی پوری طرح سے حاوی ہوچکی تھی، بچے کچھے اسٹڈی سرکل تھے۔ مگر ترقی پسند سیاست، صحافت، وکالت سے جڑا ہر دوسرے تیسرے آدمی کا سیاسی پس منظر یا ڈی ایس ایف تھی یا این ایس ایف تھی۔ تو لامحالہ ہم بھی اس تنظیم سے عشق محسوس کرتے تھے اور یہ ہماری پہلی نرسری اس وقت بنی جب نظریاتی سیاست کی آکسیجن اسے ملنا بند ہو رہی تھی اور یہ اپنے انجام کو بڑھ رہی تھی۔

اس لئے ہمیں اس تںظیم کی تاریخ جاننے بارے ہمیشہ سے شوق رہا کرتا تھا۔ مگر جب بھی اس کی کہانی سنائی جاتی تو اس میں بہت سے رخنے رہ جاتے تھے جو کبھی بھرنے کو نہیں آتے تھے۔میری بہت خواہش رہی تھی کہ میں کمیونسٹ پارٹی، پاکستان کسان رابطہ کمیٹی، انجمن ترقی پسند تحریک اور ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن /ڈی ایس ایف اور اس سے آگے این ایس کی تاریخ کو مربوط انداز میں پڑھ پاؤں۔ سورج پہ کمند۔ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی کہانی کارکنوں اور واقعات کی زبانی کے عنوان سے نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے دو سابق طالب علم رہنماؤں جاوید حسن اور محسن ذوالفقار نے اس کتاب کو مدون کیا ہے۔ اس کی پہلی جلد میں 110 انتہائی کلیدی کارکنوں کی داستان رقم ہوئی جو ان کارکنوں کی ڈی ایس ایف اور این ایس ایف میں رہ کر سیاست کا اجمالی احاطہ کرتی ہے بلکہ اس دوران پاکستان میں بائیں بازو طلباء سیاست کے تاریخی اور اہم واقعات کا احاطہ بھی کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  دلی دل والوں کی

ڈی ایس ایف اور این ایس ایف کے بانی کارکنوں، اس کی ابتدائی سے لے کر آخر تک کی قیادت، اس کے اندر ہونے والی تقسیم اور اس کے زوال تک کی ساری کہانی کتاب میں آ گئی ہے۔اور یہ نہ صرف ڈی ایس ایف و این ایس ایف کی طلباء سیاست کی تاریخ کی اہم اور سب سے زیادہ مکمل تاریخ کی کتاب ہے بلکہ اس کتاب میں پہلی بار جنوری انیس سو تریپن /1953ء کی طلباء تحریک، تین سالہ ڈگری کورس اور یونیورسٹی آرڈیننس کے خلاف تحریک، فاطمہ جناح کے صدارتی الیکشن کے دوران این ایس ایف کا کردار، بحالی جمہوریت کی ایوب مخالف تحریک، بھٹو دور میں این ایس ایف کی سیاست اور پھر ضیاء الحق دور میں این ایس ایف کی سیاست، اس طلباء تنظیم کے کسانوں ، محنت کشوں اور درمیانے طبقے کی انقلابی پرتوں سے تعلقات کا حوال بھی آ گیا ہے۔

حسن جاوید اور محسن ذوالفقار این ایس ایف کی ابتدائی صفوں میں شامل ہونے والے دانشور ایکٹوسٹ ہیں اور انہوں نے اس کتاب کو ترتیب دینے میں اپنے ساتھیوں امین بیگ اور سید واصف علی کے ساتھ مل کر اس کام کو کیا ہے۔یہ بنیادی حوالے کی کتاب ثابت ہوگی۔ اور پاکستان کی طلباء سیاست میں ترقی پسند سوچ اور عمل کی تلاش کرنے والے طالب علموں کے لئے یہ گراں قدر اضافہ ہے۔ اس پہ میں اس پروجیکٹ پہ کام کرنے والے تمام ساتھیوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ نوٹ: یہ کتاب سویرا پبلیکیشنز کے تحت شایع ہوئی ہے۔جو لوگ یہ کتاب خریدنے کے متمنی ہوں وہ حسن جاوید کو اس پتا پہ برقی مراسلہ/ای میل ارسال کرسکتے ہیں:
Hasan.jawed@gmail.com
لاہور میں :
آغا طارق سجاد
aghatriq@hotmail.com
کراچی میں:
امین بیگ
ahasasinfo@yahoo.com

حالیہ بلاگ پوسٹس

ماتم ایک عورت کا (ناول) – تبصرہ

دوستووئیفسکی کے ”جرم و سزا“ نے وحشت ذدہ کر دیا تھا۔ جیل میں ہونے والے مظالم کا پہلا تعارف تو ”زندان کی چیخ“ کے کچھ حصے تھے۔۔ طاہر بن جلون نے

مزید پڑھیں »

آئس کینڈی مین – تقسیم کی ایک الگ کہانی

بپسی سدھوا پاکستانی، پارسی ناول نگار ہیں۔ اِس وقت ان کی عمر اسی سال ہو چکی ہے۔ وہ پاکستان کے ان چند انگریزی ناول نگاروں میں سے ایک ہیں جنہوں

مزید پڑھیں »