25 دسمبر 2017ء کی ڈائری لکھتے وقت میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ کچھ ہی عرصے بعد یہ یادداشت بوجھل دل کے ساتھ قلم بند کرنا پڑے گی۔ دسمبر 2017ء دسویں عالمی اردو کانفرنس جاری تھی، کراچی آرٹس کونسل دنیا بھر سے آئے ہوئے شعراء، ادیب اور اسکالرز کی چمک سے جگمگا رہی تھی۔ ایک عرصے بعد آپا شائستہ امام "ادب اور آرٹ کی بے لوث خدمت کی زندہ مثال” سے شرف ملاقات نصیب ہوا۔ دوران گفتگو چائے کا وقفہ کب ختم ہوا پتہ ہی نہیں چلا۔ وقت کا احساس ہوتے ہی ہم دونوں آڈیٹوریم کی طرف بھاگے۔
شومئی قسمت کہ ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی ہال مکمل طور بھر چکا تھا یہاں تک کہ شعراء اور ادیب حضرات کے لیے مختص کی گئی نشستیں بھی پر ہوچکی تھیں۔ میں اور شائستہ آپا جگہ تلاش کر ہی رہے تھے کہ آرٹس کونسل کے روح رواں سربراہ جناب محمد احمد شاہ نے آواز دی کہ شائستہ رکیں آپ کے بیٹھنے کی جگہ بنواتا ہوں۔ اور اگلے ہی لمحے اسٹیج سے تین رو ہٹ کر آپا شائستہ کو نشست مل گئی۔ اتنے رش میں جہاں تل دھرنا مشکل ہو رہا تھا مجھے آپا کی نشست کے پاس زمین پر بیٹھ جانا ہی مناسب لگا۔ "پاکستان میں تھیٹر کی صورت حال” پر اجلاس جاری تھا۔ اسٹیج پر محمد احمد شاہ، نعیم طاہر، ثمینہ احمد، خالد احمد اور زین موجود تھے۔
دوران گفتگو خالد احمد نے کہا کہ پنجاب کے لوگوں نے تھیٹر کی وہ قدر نہیں کی جس کی امید تھی۔ حاضرین میں بیٹھی کشور ناہید کو خالد احمد کی بات ناگوار گزری اور وہیں سے آواز لگائی کہ آپ کی رائے ناقص ہے اور میں اس سے متفق نہیں ہوں۔ آپا کشور کی دیکھا دیکھی یکے بعد دیگرے کئی آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں اور خالد احمد کے حوصلے پست ہوتے نظر آئے۔ احمد شاہ صاحب بحیثیت میزبان معاملے کو سنبھالنے کی بھرپور کوششوں میں لگے ہوئے تھے تا کہ ہر طرح کی بدمذگی سے بچا جائے۔ اسی اثناء میں حاضرین میں موجود ایک ہاتھ بلند ہوا، احمد شاہ نے فورا لبیک کہا اور قاضی واجد صاحب کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی۔ اس شام آرٹس کونسل میں موجود ہر شخص نے دیکھا کہ قاضی واجد اسٹیج پر صرف اس لیے تشریف لائے تا کہ نوجوان خالد احمد کے پست ہوتے حوصلوں کو سہارا دے سکیں۔ قاضی واجد نے کمال خوب صورتی سے کشور ناہید کے نکتہ اعتراض کی لاج بھی رکھی اور خالد احمد کے لیے بڑھتے ہوئے تناؤ کو بھی لمحوں میں بے اثر کر دیا۔
پانچویں دن کا تیسرا اجلاس ختم ہوا، اسٹیج کے پردے گرا دیے گئے تا کہ اگلے اجلاس کی تیاری مکمل کی جائے۔ چند ہی لمحے گذرے ہوں گے کہ قاضی واجد صاحب عین میرے سامنے موجود تھے اور شائستہ آپا سے دعا سلام کر رہے تھے۔ کنچی آنکھوں والے خوبرو شخص، بے مثال اداکار کو اس قدر نزدیک سے دیکھ کر مجھے اپنا آپ سن ہوتا محسوس ہوا۔ شائستہ آپا کی محبت کہ انہوں نے لگے ہاتھوں میرا بھی تعارف کروا دیا، پہلے تو قاضی صاحب نے سرسری سا دیکھا مگر جیسے ہی آپا کے منہ سے نکلا کہ "جیا علم و ادب سے وابستہ ہیں اور خود بھی لکھتی ہیں” تو قاضی صاحب نے چونک کر میری طرف دیکھا اور میرے سلام کا جواب دیا۔
آپ کیوں لکھتی ہیں؟اس قدر اچانک سوال آنے پر ایک لمحے کو تو میں چپ رہی کہ کیا جواب دوں۔ پھر بے اختیار میں نے جواب دیا کہ سر میں اس لیے لکھتی ہوں کیوں کہ مجھے اور کچھ بھی نہیں آتا۔ اس گہری نظر کا اثر آج بھی اسی طرح قائم ہے جو میرا جواب سن کر قاضی واجد صاحب نے مجھ پر ڈالی تھی، میرے سر پر ہاتھ رکھ کر بولے شاباش بیٹا اپنی یہ ایمان داری ہمیشہ قائم رکھنا۔ کچھ توقف کے بعد انتظامات پر مامور ایک لڑکے کو آواز دی اور کہا اس بچی کے لیے کوئی سیٹ دیکھو،۔پھر میری طرف دیکھتے ہوئے بولے زمین پر مت بیٹھو، تم قلم کار ہو، زمین پر بیٹھنا تمہاری جگہہ نہیں ہے۔ کچھ دیر شائستہ آپا سے گفت و شنید کرنے کے بعد قاضی واجد صاحب واپس اپنی نشست پر جا بیٹھے اور میں بے انتہا خوشی و حیرانگی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ انہیں جاتا دیکھ رہی تھی۔
فن کی دنیا کا بہت بڑا نام” قاضی واجد” چند لمحوں کی ملاقات میں میری سوچ کو کئی نئے زاویے دے گیا، میری ملاقات ایک نئے انسان سے ہوئی۔ ایسا انسان جسے دنیا ایک معروف اور بڑے فنکار کے طور پر جانتی ہے مگر ان سے مل کر نئی حقیقت آشکار ہوئی کہ قاضی واجد بحیثیت فنکار تو بڑے آدمی تھے ہی مگر اس سے کہیں بڑھ کر وہ انسانیت، شفقت، محبت اور ظرف کے بڑے انسان تھے، ان چند لمحوں کی ملاقات سے پہلے تک میں قاضی صاحب کو ایک فنکار کی حیثیت سے پہچانتی تھی مگر اب وہ کنچی آنکھوں، زندگی سے بھرپور کڑک دار آواز والا خوبرو شخص ان لوگوں میں شامل ہے جنہیں میں دل کی گہرائیوں سے پیار کرتی ہوں جب وہ مجھ سی معمولی انسان سے اس قدر محبت سے ملے۔ مجھے ایسی انمول نصیحت کر گئے جو برسوں کی ریاضت کا ثمر ٹھہرے، تو رشک آتا ہے مجھے ان سب لوگوں کی قسمت پر جنہیں قاضی واجد صاحب کے قریب رہنا ان کا نزدیکی حلقہ احباب بن کر ان کا پیار اور ان کا ساتھ نصیب ہوا۔
کل صبح اندوہناک خبر ملی کہ قاضی واجد صاحب اب ہم میں نہیں رہے، بےشک قاضی واجد کی دنیاوی زندگی کا سفر اختتام پذیر ہو گیا مگر ان کا بےمثال کام اور ان کی لازوال شخصیت کی یادیں ہمارے دلوں میں رہتی دنیا تک زندہ رہیں گی۔
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn