Qalamkar Website Header Image

آزاد خیالی

ali muzaffarبات انتہائی آسان اور موجودہ صورتحال پر مبنی ہے اور اتنی انوکھی بھی نہیں ہے کہ اسے میرے علاوہ کوئی اور سمجھتا نہ ہو لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی ہم یا تو سمجھ نہیں پاتے اور اگر سمجھ بھی جائیں تو بول نہیں سکتے کیوں کہ جس روش پر ہم گامزن ہیں اس میں علمی مخالفت بہت مشکل ہو گئی ہے اور یہاں بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جاتا ہے ممکن ہے میری تحریر بھی پتھر نہ سہی اینٹ ضرور ثابت ہو بات یہ ہے کہ آج کل ٹرینڈ اور اسٹائل کے نشے میں چور اور آزاد خیالی کی چمک دمک میں اندھے ہوئے لوگ اتنے بے حس اور بے ضمیر ہوچکے ہیں کہ انھیں اب معاشرے میں بڑھتی ہوئی فحاشی اور آوارگی محسوس ہی نہیں ہوتی ہمارے تمام پرائیوٹ ٹی وی چینلز پر خواتین بنا دوپٹے کے نمودار ہونے لگی ہیں پہلے خواتین کو جاب کرنے سے روکنا وومن رائیٹس کی وایلیشن تھا اوراب خواتین کو دوپٹہ پہنانا وایلیشن کہلائے گا یعنی ہر قسم کی بےہودگی ایکسیپٹ ایبل ہے اور ہوگی مگر کوئی بھی ایسا کام جو اسلام سے مطابقت رکھتا ہو اس کا نفاذ تشدد اور وایلیشن کہلائے گا بلکه کہلایا جانے لگا ہے آپ دوسرے کی بہن، بیٹی کے ساتھ بنا شادی کےیا مستقبل میں شادی نہ کرنے کا ارادہ رکھنے کے باوجود دوستی کے نام پر تعلق قائم کرسکتے ہیں مگر اپنی بہن ،بیٹی کو ایسا کرنے سے روک نہیں سکتے یعنی عزت اور غیرت کا نام لینے والا ہر فرد مذہبی انتہا پسند نظر آتا ہے اس جدید اور اندھی سوچ نے معاشرے میں جسم کو آزاد اور عقل کو غلام بنا لیا ہے خود کو سیکولر کہنے والےاس طبقے کا ماننے ہے کہ معاشرے میں ہر قسم کی خرابی بُرائی اور بدنظمی کی وجہ مذہب یا مذہبی انتہا پسندی ہے۔ جہاں تک بات مذہبی انتہا پسندی کی ہے تو میں اس بات کا خود مخالف ہوں کہ آپ اپنا مذہب یا نظریہ کسی دوسرے پر مسلط نہیں کرسکتےلیکن جہاں کسی مذہب پر زبردستی عمل نہیں کروایا جا سکتا تو وہیں کسی کو ذبردستی اسکے مذہب پر عمل پیرا ہونے سے روکنا بھی خلافِ انسانی عمل ہے بشرطِیکه کوئی ایسا عمل نہ ہو جس سے کسی دوسرے کو کسی قسم کا جانی یا مالی نقصان ہو یا کسی کی تذلیل کی جارہی ہو اسی صورت میں تو ریاست کا فرض ہے کے وہ ایسے معملات کی روک تھام کرے۔ مگرجس طرف میں توجہ مبزول کرانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ میڈیا کے ذریعے اب ہماری نوجوان نسل کو برباد کیا جا رہا ہے اور یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کا علم ہماری قوم کو اس وقت ہوگا جب یہ بیماری ہماری رگوں میں سرایت کرجائے گی یورپ میں بیٹھے کچھ پاکستانی ہمدرد جو ہر وقت پاکستان کے غم میں بے حال رہتے ہیں وہ کبھی یہاں کی عوام کو یہ تو بتائیں کے یورپ میں ایک گھنٹے کے دوران کتنے ریپ ہوتے ہیں کتنے ابارشن ہوتے ہیں کتنی طلاقیں ہوتی ہیں کتنے مرد اپنی گرل فرینڈز کے لیے اپنی بیویوں کو چھوڑتے ہیں اور کتنی عورتیں اپنے بوائے فرینڈز کے لیے اپنے گھر تباہ کرتیں ہیں ؟یہ سب نہ کوئی بتاتا ہےاور نا ہی کوئی بتائے گا ایک بات ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ کے ایسٹ کبھی ویسٹ نہیں بن سکتا یورپی معاشرے نے جہاں بے پناہ ترقی کی ہے وہیں عزت وغیرت سے بھی ہاتھ دھوئےہیں مانا کے اُن کی ترقی کا اس بے ہودگی سے کوئی تعلق نہیں مگر ہماری نوجوان نسل کو یورپ کی ترقی کا خوبصورت منظر دکھا کر ان کو آزادی کے نام پر فحاشی کے سپرد کیا جارہا ہے اور یہ سب اس ملک کے لیے قابلِ قبول نہیں جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے جہاں ایک طرف مذہبی انتہا پسندوں نے اسلام اور پاکستان کو بدنام کیا ہے وہیں خود کو سیکولر کہنے والے جنونیوں نے انتہا پسندی کی مخالفت کے نام پر اسلام مخالف سرگرمیاں زور و شور سے جاری رکھی ہوئی ہیں۔ آخر میں اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کے اللہ ہمیں گناہ کرنے کے مواقوں سے بھی محفوظ رکھے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس