Qalamkar Website Header Image

پانچ فروری یومِ حقوق گلگت بلتستان

5فروری کو پاکستانی قوم کچھ کرے نہ کرے مگر حکومت کی مہربانی سے یوم کشمیر کے نام پہ چھٹی کرکے آرام ضرور کر لیتی ہےمگر اس آرام کے بیچ پاکستان کے شمال میں واقع گلگت بلتستان نامی ایک خطہ ایسا بھی ہے جس کےباسیوں کو اس مسئلے نے بے آرامی اور شدید بے چینی سے دوچار کر رکھا ہے، کہنے کو تو یہ سرزمین بے آئین گلگت بلتستان نیم خود مختار علاقہ ہے پر زمینی حقیقت یہ ہے کہ یہ خود مختار نہیں بلکہ نیم ہی نیم ہے۔۔۔ یہاں کے باشندے نیم پاکستانی ہیں۔۔۔ یہاں کی حکومت نیم جمہوری ہے۔۔۔یہاں کی عدالتیں نیم عادلانہ ہیں۔۔۔یہاں کا وزیر اعلیٰ نیم ملا ہے۔۔۔ یہاں کا گورنر نیم پنجابی ہے۔۔۔لیکن ان تمام نیموں اور ایک آدھ میموں کےباوجود حیرت در حیرت کی بات یہ ہے کہ:

کے ٹو بلتستان کے قلب میں واقع ہونے کے بعد بھی پورا پاکستانی ہے۔۔۔۔
سیاچن، کارگل،دیوسائی مکمل پاکستانی ہیں۔۔
چین اسی خطے کی برکت سے پاکستان کا مکمل پڑوسی ہے۔۔۔۔
سوست باڈر گلگت کے آخر میں ہے تو کیا ہوا یہ پورے کاپورا پاکستانی اور اس کا سب سے بڑا ڈرائی پورٹ ہے۔۔۔۔۔۔۔!
میرے پورے کے پورے پاکستانیو!!!!
ذرا سوچو تو سہی !
جب یہ پورا علاقہ پاکستان کا حصہ نہیں تو مذکورہ مقامات پاکستانی کیسے اور کیو نکرہوئے؟؟؟

اگر ذراسی حمیت اور قومی ہمدردی کا جذبہ ہے تو ان باتوں میں عقل والوں کے لیے سوچنے کے بہت سامان ہیں۔  مگر یہاں سب عقل کےاندھے ہیں۔۔۔اس خطے کے عوام نے ڈوگرہ راج سے اپنی ہمت اور زور بازو سے آزادی حاصل کرکے پاکستان سے الحاق اس امید پر کیا تھا کہ یہ نوزائیدہ اسلامی مملکت ان کو وہ تمام حقوق دےگی جو انسان کے بنیادی حقوق کہلاتے ہیں۔ مگر الحاق کے بعد اسلام کے نام پہ قائم ہونے والے پاکستان کے اشرافیہ طبقے اور اسٹبلیشمنٹ نے اس خطے کے مظلوم ومحروم عوام کے ساتھ ریکارڈ فراڈ اور بد عہدی میں گزشتہ 68سال گزار دیے۔۔۔اس دوران یہاں کے عوام اپنے حقوق کی دہائیاں دیتے رہے۔ ہر ایرے غیرے کی منت ترلے کرتے رہے مگر ان کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوتی رہی۔۔۔۔ بھٹو نے راجہ سسٹم کا خاتمہ کیا اور پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت نے کمال سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک لنگڑی لولی اسمبلی قائم کرکے اس کے قائد ایوان کا نام وزیر اعلیٰ رکھ چھوڑااور پارٹی کے علاقائی صدر کو جو بقلم خود آدمی ایک نیم میٹرک آدمی تھا،وزیر اعلیٰ نامزد کردیا۔۔۔انہوں نے پانچ سال ” دیکھیں جی ہم کہتا ہوں ” آں آں آں ” کہتے کہتے گزاردیے ۔عوام ان کی اور ترقی کی راہ دیکھتے رہے مگر وہ پانچ سال کھا پی کر پتلی گلی سے نکل لیے۔۔۔۔

اب ن لیگ نے بھی پیپلز پارٹی کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے وہی ڈرامہ بازی شروع کر رکھی ہے۔ اپنے ایک وکھرے ٹائپ کے نیم ملا صدر کا نام وزیر اعلیٰ رکھ کر ان کی مراعات اور ٹی اے ڈی اے کو یہاں کے عوام کے حقوق کانام دے رکھا ہے۔اور وزیر اعلیٰ صاحب بھی تحریک انصاف سے کدورت کے باوجود ان مراعات کے ساتھ باوجود خوب انصاف فرمارہے ہیں۔۔ آپ اسلام آباد سے کبھی کبھار گلگت تشریف لے جاتے ہیں اور ایک آدھ نمائشی اجلاس کی صدارت فرماکرپھر شہر اقتدار واپس لوٹتے ہیں۔۔۔ ان کے دن ایسے آرام سے گزر رہے تھے کہ اقتصادی راہ داری کی گزرگاہ اور سب سے بڑے ڈرائی پوسٹ ہونے کے سبب چین کی حکومت نے یہ کہہ کر رنگ میں بھنگ ڈال دیا کہ "میاں صاحب!ہم کسی ایسے علاقے سے اقتصادی راہداری کیسے گزار کر لے جائیں جس پہ بھارت کا دعویٰ ہو اور آپ بھی اس کو متنازعہ سمجھتے ہوں؟ مرتا کیا نا کرتا کے بمصداق حکومت پاکستان نے اس علاقے کو باقاعدہ صوبائی سیٹ اپ دینے کی پھلجڑی چھوڑی ہی تھی کہ آزاد کشمیر کی ننگ کشمیر قیادت گلگت بلتستان کے حقوق کی راہ میں سد سکندری بن کر کھڑی ہوگئی اوریہ واویلا مچانا شروع کردیا کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہے اور اس علاقے کو صوبائی سیٹ اپ دینے سے مسئلہ کشمیر پر برا اثر پڑے گا۔۔۔۔

یہ بھی پڑھئے:  کوئٹہ کا انسانی المیہ | میثم اینگوتی

سوال یہ ہے کہ کشمیر سے گلگت بلتستان کا کیا تعلق ہے؟
گزشتہ 67 سالوں سے اس علاقے کو بنیادی حقوق سے محروم رکھ کر مسئلہ کشمیر پر کون سے مثبت اثرات مرتب ہوئے؟
اگر آزادی، خود مختاری اور استصواب رائےکشمیریوں کے بنیادی حقوق میں شامل ہیں تو گلگت بلتستان کے عوام کوان سے کیسے اور کیونکر محروم رکھا جا سکتاہے؟

کشمیری رہنماؤں کو اس بات کازیادہ احساس ہونا چاہیے کہ حق تلفی اور حقوق سے محرومی کیا ہوتی ہے ۔مگر یہ نام نہاد لیڈر مظلوم عوام کے دکھوں پر مرہم رکھنے کی بجائے ان پر نمک پاشی کررہے ہیں۔۔۔۔۔اور اپنی سرزمین کو ہندوستان سے آزاد کروانے کی بجائے گلگت بلتستان کو بھی ہندوستان کی غلامی میں دینے کی سازشیں کر رہے ہیں۔۔۔۔مسئلہ کشمیر ایک مردہ گھوڑا ہے اب مشکل ہے کہ اس میں جان پڑے۔۔خود حکومت پاکستان کی اس مسئلے سے دلچسپی کا عالم یہ ہے کہ کئی سالوں سے مولانا فضل الرحمان کو کشمیر کمیٹی کا چئیرمین لگا رکھا ہے۔۔۔اس سے اندازہ کیجیےکہ حکومت کو مسئلہ کشمیر سے کتنی محبت اوردلچسپی ہے ۔۔گلگت بلتستان کا کشمیر سے ہرگز کوئی تعلق نہیں،نہ تو ان کی ثقافت ملتی ہے نہ زبان،نہ سرحد ملتی ہے نہ ان کے باسیوں کے دل،پھر بھی بعض کشمیری رہنما نہ جانےکیوں اس پہ اصرار کررہے ہیں ؟

پاکستان نےمقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے لیے اقوام متحدہ سے استصواب رائے کی قرارداد منظور کروارکھی ہے سوال یہ ہے کہ کیا یہ حق وہ گلگت بلتستان کے مقہورو مجبور عوام کو بھی دینے پر تیار ہوگا یا یہ سہولت صرف کشمیریوں کے لیے ہے؟

اس وقت مسئلہ گلگت بلتستان کے تین ممکنہ حل ہوسکتےہیں:

1-اس کو باقاعدہ پاکستان کا پانچواں صوبہ قرار دے کر مکمل صوبائی حقوق دئیے جائیں اور آبادی کے حساب سے قومی اسمبلی اور سینٹ میں ان کے نمائندے ہوں۔
2-آزاد کشمیر طرز کا ایک سیٹ اپ دیا جائے۔

یہ بھی پڑھئے:  شیر پنجاب مصطفی کھر اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے دربدر | انو رعباس انور

3-ریفرنڈم کے ذریعے یہاں کے عوام کو پاکستان کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے اور اپنے لیے کسی نظام کے انتخاب کا حق دیا جائے۔

دوسرے آپشن کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ آزاد کشمیر طرز کے سیٹ اپ کا مطلب وزارت امور کشمیر کے ماتحت اور چیف سیکریٹری کو بادشاہ وقت ماننے والی اسٹبلیشمنٹ کے مقامی ایجنٹوں کی حکومت ہے جس کو یہاں کے عوام پہلے ہی بھگت رہے ہیں ۔

پہلا آپشن زیادہ بہتر لگتاہے مگر گذشتہ 67 سال سے عوامی مطالبے کےباوجود اس پر عمل نہ ہو سکا اور اب چین کے دباؤ پر اس پر عمل کی امید ہوچلی تھی کہ کباب میں ہڈی بن کر نام نہاد کشمیری لیڈر روڑے اٹکانے لگے اور پاکستان کی حکومت بھی اس سے جان چھڑانے کے لیے ایسے کسی کمزور بہانے کی تلاش میں تھی سو وہ بھی من کی مراد پاگئی۔ اب اس پہ عمل مشکل ہی نہیں ناممکن ہی سمجھ لینا چاہیے۔۔۔۔

ایسے میں تیسرا آپشن ہی مناسب اور عوامی امنگوں کے مطابق ہے۔۔جب پاکستان مقبوضہ کشمیر میں استصواب رائے چاہتا ہے جبکہ یہ اس کے بس میں بھی نہیں تو گلگت بلتستان میں استصواب رائے کیوں نہیں ہوسکتا جبکہ یہ اس کے اختیار میں بھی ہے؟
اگر عوام نے اس بے وفا اور سنگدل محبوب کے ساتھ رہنے پہ صاد کیا تو چلو مزید سو سال کی خواری اور سہی ،پرانی تنخواہ پہ غلامی جاری وساری رہےگی ورنہ اس خطے کو کالے انگریزوں کے چنگل سے آزاد کرکے اس کی سابقہ پوزیشن بحال کردی جائے۔۔۔۔۔!

پھر ہم ہونگے اور رقص میں سارا جنگل ہوگا

بہت ہو گئی بے اعتنائی۔بہت ہوگئی بے اعتباری، بہت ہوچکی رسوائی،حد ہوچکی ذلت ورسوائی کی!!!!!
اب مزید کشمیر سے یکجہتی کے نام پہ ہم سے وفاق کی کاسہ لیسی نہیں ہو سکتی۔
5فروری کوجو لوگ یکجہتی کشمیر کے نام پہ آزاد کشمیر کے دونمبری سیاستدانوں سے عہد وفاداری کا اظہار کر یں گے عوام کو انہیں یاد رکھنا چاہیے اور سمجھ لینا چاہئے کہ یہ گلگت بلتستان کے نمائندے نہیں بلکہ سردار عتیق کے ٹٹو ہیں۔۔۔۔۔۔۔!

ہم اب 5 فروری کو یوم حقوق گلگت بلتستان منایا کریں گے جب ہمیں حقوق ملیں گے تب اپنے جگر میں سارے جہاں کا درد پالنے کا سوچیں گے۔۔۔۔ !

 

حالیہ بلاگ پوسٹس